کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 441
ہے تو مسلمانوں کو اس کا خریدنا کھانا جائز ہے یا نہیں ؟ صاف صاف ارقام فرمائیں۔ جواب:مسلمانوں کو اس بکرے کا خریدنا جائز ہے۔واللّٰه أعلم بالصواب سوال:سانڈ جو ہندوستان میں ہنود لوگ آزاد کرتے ہیں،اس کا دربارہ حلت و حرمت کیا حکم ہے؟ جواب:اگرچہ سانڈ کا آزاد کرنا محض ناجائز فعل،بلکہ عین شرک و کفر ہے،مگر سانڈ جو آزاد کیا گیا ہے حلال ہے،بمجرد آزاد کرنے اور غیر اﷲ کے نام پر چھوڑنے سے حرام نہیں ہوا۔ہاں اگر اس سانڈ کے ساتھ کسی کی ملکیت یا حق متعلق ہے تو اس صورت میں دوسرے کے لیے بدوں اس کے اذن کے حرام ہے،لیکن نہ غیر اﷲ کے نام پر آزاد کیے جانے سے،بلکہ تعلق حقِ غیر کی جہت سے،جیسا کہ ہر چیز کا یہی حال ہے کہ بوجہ تعلق حق غیر کے بدوں اذن اس کے دوسرے کے حق میں حرام ہوتی ہے،الغرض کسی چیز کے غیر اﷲ کے نام پر چھوڑے جانے سے اور آزاد کیے جانے سے اس چیز میں حرمت نہیں آجاتی۔تفصیل و تحقیق اس مسئلے کی ’’فتویٰ سانڈ‘‘ مصنفہ جناب مولانا حافظ عبداﷲ صاحب غازیپوری (مدرس اول مدرسہ احمدیہ آرہ) میں بہت بسط کے ساتھ کی گئی ہے۔من أراد الوقوف علی الدلائل فلیرجع إلیہ۔ حررہ:أبو العلیٰ محمد عبد الرحمن المبارکفوري۔عفا اللّٰه عنہ۔الجواب صحیح۔کتبہ:محمد عبد اللّٰه۔[1] دورانِ ملازمت مالک کی اجازت و اطلاع کے بغیر اپنا کاروبار کرنا: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ زید ایک عرصے سے عمرو کا ملازم تھا اور کام،یعنی تجارت کا کاروبار خرید و فروخت جو اس کے متعلق تھے،انجام دے رہا تھا،اس اثنا میں اس نے اپنی خواہش،نیز لالچ میں آکر،اس ملازمت کے اندر اندر اپنا ایک دوسرا کاروبار بلا اجازت اپنے مالک کے کرنا شروع کر دیا،بلکہ جس کا ملازم تھا اسی کے خرچ سے اپنا بھی مال خرید کر اور اسی کے خرچ سے بیچنے لگا اور بطور خاص اپنا فائدہ اٹھایا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ فعل اس ملازم کا عند الشرع درست و جائز ہے اور کیا ملازم کو اپنا ایک الگ کام جاری کرنے کا حق حاصل تھا؟ اگر حق حاصل نہیں تھا تو در صورتِ مرقومہ ناجائز ہونے اس فعل کے رقم فائدہ شدہ جو ملازمت کے اندر اندر زید نے حاصل کی ہے،زید کی یہ سب رقم مالک عمرو کی ملکیت ہوگی یا نہیں یا کہ زید و عمرو دونوں نصفاً نصف کے حقدار ہوں گے؟ اس کے بارے میں دلیل بدلائلِ قرآن مجید و حدیث شریف خوب صاف صاف ہونا چاہیے۔بینوا توجروا! سائل حاجی سالار الدین،عفی عنہ۔از چکر دھرپور (مورخہ ۱۰/ شعبان المعظم ۱۳۳۸ھ)
[1] مجموعہ فتاویٰ غازی پوری (ص:۶۰۵)