کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 440
قاضی شوکانی نیل الاوطار (۱/ ۶۲) میں لکھتے ہیں: ’’ولعلہ لم یبلغ الزھري بقیۃ الروایات وسائر الأحادیث،وقد ردہ في البحر بمخالفۃ الإجماع ‘‘ انتھی [ممکن ہے زہری کو دوسری روایات نہ پہنچ سکی ہوں،لہٰذا جمہور کے برخلاف ہونے کی وجہ سے اس کے قول کو رد کر دیا گیا ہے] امام نووی شرح صحیح مسلم (۱/ ۱۵۹) میں لکھتے ہیں: ’’وقد یحتج للزھري بقولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم:ھلا انتفعتم بإھابھا؟ ولم یذکر دباغھا،ویجاب بأنہ مطلق،وجاء ت الروایات الباقیۃ ببیان الدباغ،و أن دباغہ طہورہ‘‘ انتھیٰ [امام زہری کا استدلال یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ کرنے کا ذکر نہیں کیا،لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوسری روایات میں رنگنے کی شرط مذکور ہے اور رنگ کرنے ہی سے مردار کا چمڑا پاک ہوتا ہے] کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] جھٹکا کیے ہوئے جانور کی کھال اور اس کی تجارت درست ہے یا نہیں ؟ سوال:جھٹکا کیے ہوئے جانوروں کا چمڑا پاک ہے یا نہیں اور اس کی تجارت درست ہے یا نہیں ؟ جواب:جو جانور جھٹکے سے مارا جاتا ہے،وہ مردار کے حکم میں ہے اور مردار کا چمڑہ بعد دباغت دینے کے پاک ہوجاتا ہے۔جب اس کا چمڑا پاک ٹھہرا تو جس طرح سے چاہے اس سے نفع حاصل کر سکتا ہے،اس لیے اس کی اگر تجارت کی جائے تو جائز ہے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ حررہ:العبد العاجز عین الدین،عفي عنہ۔ سید محمد نذیر حسین هو الموافق جھٹکا کیے ہوئے جانوروں کا چمڑا قبل دباغت کے ناپاک ہے اور اس کی تجارت جائز نہیں اور بعد دباغت کے پاک ہے اور اس کی تجارت بھی جائز ہے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفي عنہ۔[2] کیا غیراللہ کے نام پر پالا ہوا جانور خریدنا جائز ہے؟ سوال:اگر کسی ہندو نے اپنے بت کے نام سے بکرا پالا تھا،بعد چندے اس ارادے سے باز آیا اور اس کو فروخت کرنا چاہتا
[1] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۱۲۶) [2] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۱۳۰)