کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 438
[اے ثوبان! فاطمہ کے لیے عصب کا ایک ہار خرید لاؤ اور ہاتھی دانت کے دو کنگن] عون المعبود (۴/ ۱۴۱) میں ہے: ’’قال الخطابي في المعالم:العاج الذبل،وھو عظم ظھر السلحفاۃ البحریۃ،فأما العاج الذي تعرفہ العامۃ فھو أنیاب الفیل،وھو میتۃ لا یجوز استعمالہ۔انتھی،قال التوربشتي بعد ما نقل عبارۃ الخطابي ھذہ:من العجیب العدول عن اللغۃ المشھورۃ إلیٰ ما لم یشتھر بین أھل اللسان،والمشھور أن العاج عظم أنیاب الفیلۃ،وعلیٰ ھذا یفسرہ الناس أولھم وآخرھم۔انتھیٰ،قال القاري:لعل وجہ العدول أن عظم المیت نجس عندہ۔قلت:لا شک أن وجہ العدول ھو ما قال القاري کما یظھر من عبارۃ الخطابي،وقد وقع الاختلاف في عظم الفیل فعند الشافعي نجس،وعند أبي حنیفۃ طاہر،ونقل عن شیخ الإسلام الحافظ ابن تیمیۃ رحمہ اللّٰه أنہ قال:عظم المیتۃ لیس بنجس ولا تحلہ الحیاۃ،وقد اتخذ الصحابۃ رضی اللّٰه عنہم أمشطۃ من عظام الفیل؛ فلو کان نجسا ما اتخذوہ‘‘ انتھیٰ۔ [خطابی نے کہا ہے:عاج تو بحری کچھوے کی پیٹھ کی ہڈی ہے اور عاج مطلق ہاتھی دانت کو کہتے ہیں اور وہ مردار ہیں۔ان کا استعمال درست نہیں۔تورپشتی نے کہا ہے:بڑی عجیب بات ہے کہ خطابی نے عاج کا وہ ترجمہ کیا ہے،جو عام مشہور لغت کے خلاف ہے،مشہور لغت میں عاج کا ترجمہ ہاتھی دانت ہی ہے۔ملا علی قاری نے کہا ہے:اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ خطابی کے نزدیک ہاتھی دانت کا استعمال منع ہے،کیوں کہ اس کے نزدیک مردار ہڈی ناپاک ہے،حالاں کہ صحابہ ہاتھی دانت کی کنگھیاں استعمال کرتے تھے۔اگر یہ ناپاک ہوتا تو صحابہ ان کا استعمال نہ کرتے۔ہاتھی دانت ابو حنیفہ کے نزدیک ناپاک ہے اور امام شافعی کے نزدیک پاک۔علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ مردار کی ہڈی کو پاک کہتے ہیں ] واللّٰه أعلم بالصواب،کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] سید محمد نذیر حسین مردار کی کھال دباغت سے قبل فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے میں کہ مردار کی کھال قبل دباغت کے فروخت کرنا
[1] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۱۲۴)