کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 437
کتاب البیوع ہڈی کی تجارت: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ہڈی کی تجارت جائز ہے یا نہیں ؟ جواب:ہڈی کی تجارت جائز ہے،ماکول اللحم کی ہڈی ہو یا غیر ماکول اللحم کی۔صحیح بخاری[1] (صفحہ:۱۷۰) میں ہے: ’’قال حماد:لا بأس بریش المیتۃ۔وقال الزھري في عظام الموتیٰ نحو الفیل وغیرہ:أدرکت ناساً[2]من سلف العلماء یمتشطون بھا،ویدھنون فیھا،و لا یرون بہ بأسا۔وقال ابن سیرین وإبراھیم:لا بأس بتجارۃ العاج‘‘[3] انتھیٰ یعنی حماد بن ابی سلیمان کوفی فقیہ نے کہا کہ مردار کے پَر میں کچھ مضائقہ نہیں ہے (یعنی مردار کا پر نجس نہیں ہے،ماکول اللحم کا پَر ہو یا غیر ماکول اللحم کا ہو) [4] اور زہری نے مردار جانور جیسے ہاتھی وغیرہ کی ہڈیوں کے بارے میں (یعنی ان جانوروں کی ہڈیوں کے بارے میں جو غیر ماکول اللحم ہیں)[5] کہا ہے کہ میں نے بہت سے علماے سلف کو پایا کہ وہ ان ہڈیوں کے کنگھے استعمال کرتے تھے اور اس میں کچھ مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ابن سیرین اور ابراہیم نے کہا کہ ہاتھی کے دانت کی تجارت میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ان بہت سے علمائے سلف اور ابن سیرین و ابراہیم کے اس قول کی تائید ابو داود کی اس حدیث سے ہوتی ہے: (( یا ثوبان! اشتر لفاطمۃ قلادۃ من عصب وسوارین من عاج )) [6] أخرجہ في باب الانتفاع بالعاج۔[7]
[1] مطبوعہ انصاری دہلی مع فتح الباري۔ [2] ناسا أي کثیراً۔و التنوین للتکثیر،کذا في فتح الباري۔ [3] صحیح البخاري (۱/ ۹۳) [4] کذا في فتح الباري۔ [5] کذا في فتح الباري۔ [6] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۴۲۱۳) اس کی سند میں ’’حمید‘‘ اور ’’سلیمان‘‘ دو راوی مجہول ہیں۔ [7] یا ثوبان اشتر لفاطمۃ قلادۃ۔۔۔الخ۔أقول:اس حدیث کو امام احمد اور ابو داود نے حمید بن ابی حمید الشامی سے اور انھوں نے سلیمان المنبہی سے اور انھوں نے ثوبان سے روایت کیا ہے۔یحییٰ بن معین وغیرہ نے حمید اور سلیمان دونوں کو مجہول اور غیر معروف بتایا ہے،مگر ابن حبان نے ان دونوں،یعنی حمید شامی کندی اور سلیمان بن عبداﷲ،کو اپنی کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے،باقی رجال ابو داود کے سب ثقہ ہیں اور اس باب میں ایک ضعیف حدیث اور بھی آئی ہے:’’أخرج البیھقي في سننہ عن بقیۃ عن عمرو بن خالد عن قتادۃ عن أنس أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم کان یمتشط بمشط من عاج‘‘ انتھی۔قال:’’وروایۃ بقیۃ عن شیوخہ الجھولین ضعیفۃ‘‘ انتھیٰ۔قال الزیلعي:أوھم بقولہ عن شیوخہ المجھولین أن الواسطي مجھول ولیس کذلک‘‘ انتھیٰ۔نصب الرایۃ (۱/ ۶۲ و ۶۳) تھذیب التھذیب،تقریب التھذیب،میزان الاعتدال۔(أبو سعید محمد شرف الدین)