کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 435
اس کا حصہ اس میں مسلمانوں کے حصے کی طرح ہو تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو خرید لیا۔انس رضی اللہ عنہ نے ایک مکان وقف کیا تو جب وہاں جاتے تو اسی مکان پر قیام فرماتے] کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔ سوال:علمائے دین اس مسئلے میں کیا فرماتے ہیں کہ مسماۃ ہندہ نے ایک جائداد متعلق مسجد وقف کر کے اپنے بھائی کی لڑکی کے پوتے کو متولی مقرر کیا اور اسی شے موقوفہ کی آمدنی کا ایک جزو مز و محنت سالانہ متولی مذکور کا مقرر کیا اور جب کوئی شخص اس خاندان کا باقی نہ رہے،تب خاندان شوہری کا جو شخص لائق ہو،بذریعہ بادشاہِ وقت متولی مقرر ہونے کی تولیت نامہ میں شرط لکھی ہے۔ اب خاندان شوہری کا ایک شخص بگذاشت مز و محنت و حق خدمت تعمیل اموراتِ حساب کرنا چاہتا ہے اور بنظر ترقی حساب خدمت کو بھی اسی کار جز میں خرچ کرنا چاہتا ہے،اس حالت میں متولی اول عند الشرع معزول ہو کر بجائے اس کے متولی جدید جو بگذاشت مز و محنت کے انجام تولیت کو قبول کرتا ہے،مقرر کیا جا سکتا ہے یا نہیں اور جس شے موقوفہ کا ایک جز متولی کے ذات پر صرف ہو تو ایسا وقف جائز ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ فقط المستفتي:چودھری احمد اﷲ بلاسپوری جواب:مسماۃ ہندہ نے تولیت نامہ میں جو شرط لکھی ہے،وہ شرعاً معتبر ہے،اس کا ایفا ضروری ہے،پس جب تک ہندہ کے بھائی کی لڑکی کے خاندان میں کوئی لائق شخص باقی رہے گا،وہی متولی ہوگا اور جس قدر مز و محنت سالانہ ہندہ نے مقرر کیا ہے،لیا کرے گا اور اس کے ہوتے ہوئے خاندان شوہری کا کوئی شخص گو بلا گرفت مز و محنت انجامِ تولیت کو قبول کرے،متولی نہیں ہوسکتا اور جس وقف میں شے موقوفہ سے ایک جز و متولی کے داخل صرف ہونے کی شرط کی گئی ہو،وہ وقف جائز ہے۔ ’’عن عمرو بن عوف:[أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال] المسلمون علی شروطھم إلا شرطا حرما حلالا أو أحل حراما‘‘[1] [عمرو بن عوف سے مروی ہے کہ بلاشبہہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں،سوائے اس شرط کے جو حلال کو حرام یا حرام کو حلال ٹھہرائے] ’’وقال عمر:إن مقاطع الحقوق عند الشروط،ولک ما اشترطت‘‘[2] [عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حقوق کے حصے شرطوں کے مطابق ہیں اور تیرے لیے وہی جس کی تو نے شرف عائد کی]
[1] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۳۵۲) [2] صحیح البخاري (۲/ ۹۶۹)