کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 429
کر دیا۔ایک سال کے بعد وہ عورت بباعثِ ظلم اور تعدی خاوند اپنے کے بھاگ گئی تو اس کے خاوند نے دعویٰ،جس نے نکاح اپنی ولایت سے کیا،اس پر کیا کہ دو سو سرسٹھ (۲۶۷) روپے اور زیور لے کر کے بھاگ گئی،وہ روپیہ مذکورہ دے دو،تو میں فارغ خطی دے دوں۔دو ماہ کے بعد چھے،سات آدمیوں کے سامنے بطور پنچایت کے جمع کر کے سب کے رو برو غائبانہ فارغ خطی لکھ دی،بطور رسم اپنی قوم کے کہ مجھ کو اس عورت سے تعلق نہیں رہا اور نہ میں کہیں دعویٰ عدالت وغیرہ میں کروں اور جہاں اس کا دل چاہے وہاں رہے،قطعی فیصلہ کر دیا،رجعی وغیرہ کا کچھ ذکر درمیان میں نہیں آیا،مگر زبان سے ایک مرتبہ طلاق دی اور یہ بھی اس شخص نے سب کے سامنے کہا کہ جو روپے لے گئی ہے وہ اور زیور اور برتن جو اس کے پاس اپنے باپ کی ملکیت سے تھا،وہ دلایا جائے اور جو کچھ خرچ شادی میں صرف ہوا ہے اور کپڑا دلایا جائے تو میں فارغ خطی تحریر کر دیتا ہوں تو وہ سب اس کے کہنے کے موافق سب پنجوں نے دلوایا ولی سے اور مہر کے روپے بھی ولی سے جمع کرائے کہ وہ عورت اگر مہر معاف کر دے تو ولی کو واپس دیا جائے اور جو نہ معاف کیا تو عورت کو دلایا جائے گا۔ بعد ایک ماہ کے دو چار آدمیوں کے سامنے کہا کہ جس طرح میں نے غائبانہ طلاق دی ہے،اسی طرح غائبانہ رجوع کر لیا ہے اور فارغ خطی کے دینے کے وقت رجعی کا ذکر مطلق نہ تھا،قطعی فیصلہ پنچوں کے سامنے کر دیا اور فارغ خطی پر دست خط کر دیے کہ میں نے برضا و رغبت فارغ خطی دے دی،اب اس عورت کو اختیار ہے جہاں چاہے رہے،مجھ کو اس سے کچھ تعرض و دعویٰ نہیں ہے۔اب اس پر فتویٰ دیا جائے کہ رجوع صحیح ہوا یا طلاق صحیح ہوئی شرعاً؟ جواب:واضح رہے کہ فارغ خطی ہمارے عرف کے مطابق ایک طلاق بائن ہوتی ہے،لہٰذا اب زوج کو کسی صورت میں رجوع کا حق حاصل نہیں ہے اور عورت کو بعد گزر جانے عدت کے اختیار ہو گا کہ جس سے چاہے،اپنا نکاح کر لے۔واﷲ أعلم بالصواب۔ سید محمد نذیر حسین هو الموافق صورتِ مسئولہ میں چونکہ شخص مذکور نے بعوض مال کے طلاق دی ہے،اس لیے یہ طلاق خلع ہے اور خلع میں طلاقِ بائن واقع ہوتی ہے اور رجوع کا حق باقی نہیں رہتا۔پس صورتِ مسئولہ میں طلاق صحیح ہوئی اور اس شخص کا رجوع کرنا صحیح نہیں ہوا،اس کے رجوع کرنے سے اس کی عورت مطلقہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی۔واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] عنین شوہر سے خلع طلب کرنا درست ہے: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک شخص کا نکاح اس وقت ہوا تھا جس وقت وہ نابالغ تھا،اس کے وارثوں نے نکاح قبول کیا تھا۔جب وہ شخص بالغ ہوا تو وہ عنین نامرد نکلا جو عورت کے قابل نہیں ہے۔اب
[1] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۷۹)