کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 423
شرعی طور پر دی جائیں۔ان تینوں صورتوں کے علاوہ کوئی اور صورت طلاقِ بائن واقع ہونے کی نہیں ہے،بلکہ ان کے علاوہ اور جو صورت ہے،وہ طلاقِ رجعی کی صورت ہے،مثلاً:اگر کسی نے اپنی عورت کو بایں لفظ طلاق دی کہ ’’أنت طالق طلقۃ بائنۃ‘‘ [تجھے ایک بائنہ طلاق ہے] تو بھی طلاق رجعی ہی ہوگی اور بینونت کی قید لغو ہو گی۔اور یہی مسلک حق ہے اور جمہور اسی کے قائل ہیں۔ علامہ ابن القیم زاد المعاد (۲/ ۲۱۴) میں لکھتے ہیں: ’’وقد ذکر اللّٰه سبحانہ وتعالیٰ أقسام الطلاق کلھا في القرآن،وذکر أحکامھا فذکر الطلاق قبل الدخول وأنہ لا عدۃ فیہ،وذکر الطلقۃ الثالثۃ وأنھا تحرم الزوجۃ علیٰ المطلق حتی تنکح زوجا غیرہ،وذکر طلاق الفداء الذي ھو الخلع،وسماہ فدیۃ،ولم یحسبہ من الثلث،کما تقدم،وذکر الطلاق الرجعي الذي المطلق أحق فیہ بالرجعۃ،وھو ما عدا ھذہ الأقسام الثلاثۃ،وبھذا احتج أحمد والشافعي وغیرھما علیٰ أنہ لیس في الشرع طلقۃ بائنۃ کانت رجعیۃ،ویلغو وصفھا بالبینونۃ،وأنہ لا یملک إبانتھا إلا بعوض،وأما أبو حنیفۃ وقال:تبین بذلک،لأن الرجعۃ حق لہ وقد أسقطھا،والجمھور یقولون:وإن کانت الرجعۃ حقا لہ لکن نفقۃ الرجعیۃ وکسوتھا حق علیہ،فلا یملک إسقاطہ إلا بإختیارھا وبذلھا العوض أو سؤالھا أن تفتدي نفسھا منہ بغیر عوض في أحد القولین،وھو جواز الخلع بغیر عوض،وأما إسقاط حقھا من الکسوۃ والنفقۃ بغیر سؤالھا ولا بذلھا العوض فخلاف النص والقیاس۔۔۔إلی قولہ:ونکتۃ المسألۃ أن اللّٰه لم یجعل للأمۃ طلاقا بائنا قط إلا في موضعین،أحدھما طلاق غیر المدخول بھا،والثاني المطلقۃ الثالثۃ،وما عداہ من الطلاق فقد جعل للزوج فیہ الرجعۃ،ھذا مقتضیٰ الکتاب کما تقدم تقریرہ،وھذا قول الجمھور،منھم الإمام أحمد والشافعي،وأھل الظاھر،قالوا:لا یملک إبانتھا بدون الثلاث إلا في الخلع،ولأصحاب مالک ثلاثۃ أقوال فیما إذا قال:أنت طالق طلقۃ لا رجعۃ فیھا۔۔۔إلیٰ قولہ:الثالث:أنھا واحدۃ رجعیۃ،وھذا قول ابن وھب،وھو الذي یقتضیہ الکتاب والسنۃ والقیاس،وعلیہ الأکثرون‘‘ انتھیٰ۔ھذا ما عندي،واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ [اﷲ تعالیٰ نے طلاق کی تمام اقسام کا ذکر قرآن مجید میں کیا ہے اور ان کے احکام بھی بیان کیے ہیں۔طلاق قبل دخول کا ذکر کیا اور کہا:اس میں عدت نہیں ہے۔تیسری طلاق کا ذکر کیا اور اس سے عورت کو