کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 419
بالصواب۔عورت مذکورہ اگر موافق شرط کے مہر بخش دے گی تو بلاشبہہ ایک طلاق بائن ہوجائے گی اور دوسری شرط لغو ہے۔کما لا یخفیٰ علیٰ الماھر بالشریعۃ۔ سید محمد عبدالسلام غفرلہ سید محمد ابو الحسن سید محمد نذیر حسین هو الموافق فی الواقع شخص مذکور خواندہ نے جو دو امر مذکور پر طلاق کو معلق کیا ہے،سو ان میں سے دوسرا امر یعنی عقد کفو لغو ہے،پس وہ کالعدم ہے،بنا بریں پہلا امر،یعنی بخشیدن حق مہر اگر عورت کی جانب سے پایا گیا تو طلاق واقع ہوجائے گی۔واﷲ تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوي،عفا اللّٰه عنہ۔[1] طلاق بالکنایہ: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید نے مسماۃ ہندہ اپنی منکوحہ عورت کو کسی وجہ سے گھر سے نکال دیا اور برادری کے روبرو زید نے مسماۃ ہندہ سے کہہ دیا کہ میں نے اس کو چھوڑ دیا۔نان و پارچہ ہندہ کا بھی زید نے بالکل قطع کر دیا۔مسماۃ ہندہ خالد کے گھر جا بیٹھی اور بغیر نکاح کے مسماۃ ہندہ سے نطفہ خالد سے دختر پیدا ہوئی۔اہلِ برادری خالد سے کہتے ہیں کہ مسماۃ ہندہ سے نکاح پڑھا لے۔خالد کہتا ہے کہ زید سے طلاق دلوا دیجیے۔زید کلمہ طلاق یعنی ’’طلقتک‘‘ نہیں کہتا ہے،حالاں کہ سابق میں زید نسبت مسماۃ ہندہ کے کلمہ ’’چھوڑ دیا‘‘ کہہ چکا ہے۔اس صورت میں مسماۃ ہندہ زید کے نکاح سے باہر ہوئی یا نہیں ؟ اگر نکاح سے باہر نہیں ہوئی تو مسمی خالد کس صورت سے اس سے نکاح کر سکتا ہے؟ اور زید ہندہ سے راضی نہیں ہے اور نہ ہندہ زید سے رضا مند ہے تو زنا علانیہ طور پر ہو گا۔اس باب میں جو کچھ حکم شریعت کا ہو،وہ بحوالہ کتبِ معتبرہ مشرح و مفصل مرحمت فرمایا جائے۔ جواب:صورتِ مرقومہ میں واضح ہو کہ زید کا برادری کے روبرو یہ کلمہ کہنا کہ میں نے اس کو ’’چھوڑ دیا‘‘ طلاق بالکنایہ ہے،کیونکہ یہ ترجمہ ’’سَرَّحْتُکِ‘‘ کے لفظ کا ہے اور لفظ ’’سَرَّحْتُکِ‘‘ طلاق بالکنایہ کا لفظ ہے۔طلاق بالکنایہ میں نیتِ طلاق یا دلالتِ حال کا پایا جانا ضروری ہے۔جب زید نے اپنی منکوحہ کو کلمہ مذکورہ کہہ کر گھر سے نکال دیا اور نان و پارچہ بالکل قطع کر دیا تو صاف ظاہر ہے کہ اس کلمہ کے کہنے سے زید کی نیت طلاق کی تھی،پس مسماۃ ہندہ زید کے نکاح سے بلاشبہہ باہر ہو گئی۔اب ہندہ جس مرد سے چاہے اپنا نکاح کر سکتی ہے اور اب زید سے کلمہ طلاق کہلانے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔واللّٰه تعالیٰ بالصواب۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] سید محمد نذیر حسین
[1] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۵۷) [2] فتاویٰ نذیریہ (۳/ ۶۶)