کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 41
تھے۔وہ نہایت خوشگوار و پردرد واعظ تھے۔وعظ کرتے تو خود روتے اور دوسروں کو رلاتے۔نئی باتوں میں اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے۔چنانچہ نئے طرز پر انجمن طلبا اورعربی مدرسہ اور اس میں دار الاقامہ کی بنیاد کا خیال انہی کے دل میں آیا اور انہی نے ۱۸۹۰ء میں ’’مدرسہ احمدیہ‘‘ کے نام سے ایک مدرسہ آرہ میں قائم کیا۔‘‘[1]
مولانا حافظ ابراہیم آروی رحمہ اللہ نے اپنے مدرسے میں اساطینِ علم و فن کو جمع کیا،جن میں مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ (المتوفی ۱۳۳۷ھ) بھی تھے۔انھیں صدر مدرس کے عہدے پر فائز کیا گیا۔حضرت حافظ صاحب غازی پوری نے ۲۰ سال تک (۱۸۸۶ء تا ۱۹۰۶ء) مدرسہ احمدیہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
حضرت محدث غازی پوری رحمہ اللہ نے مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کو آرہ بلا کر اپنے ساتھ درس و تدریس میں شریک کار بنا لیا۔چنانچہ یہ دونوں استاد و شاگرد اس مدرسے میں کافی عرصہ تک تشنگانِ علم کو سیراب کرتے رہے۔تاآنکہ بانی مدرسہ مولانا حافظ ابراہیم آروی رحمہ اللہ نے اس دنیائے فانی سے رحلت فرمائی اور اس مدرسہ پر زوال آنا شروع ہو گیا۔آخر یہ مدرسہ آرہ سے در بھنگہ منتقل ہو گیا اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔[2]
ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۹۶۶ء) لکھتے ہیں:
’’مدرسہ احمدیہ آرہ اپنے عہد میں اہلِ حدیث بہار کی یونیورسٹی تھی،جس میں تمام حصص ملک کے طلبا حاضر رہے۔افسوس آج یہ یونیورسٹی برباد ہو گئی ہے۔‘‘[3]
مدرسہ احمدیہ آرہ میں تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کو مدرسہ دار القرآن والحدیث کلکتہ کے ناظم صاحب نے اپنے مدرسے میں تدریس کی دعوت دی،جسے آپ نے منظور فرمایا۔
’’تذکرہ علماے اعظم گڑھ‘‘ کے مصنف مولانا حبیب الرحمن قاسمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ مدرسہ احمدیہ آرہ کے صدر مدرس تھے۔شاگرد نے استاد کی طلب پر مدرسہ آرہ کا رخ کیا۔اب استاد اور شاگرد دونوں ایک ساتھ علمی خدمات انجام دینے لگے۔اس دوران مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کی علمی قابلیت کا شہرہ ہو گیا اور دور دور تک اہلِ مدارس کی نظر آپ پر پڑھنے لگی۔چنانچہ مدرسہ دار القرآن و الحدیث کلکتہ کے ناظم نے مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ کو دعوت دی۔مولانا اپنے استاد (محدث غازی پوری رحمہ اللہ)کی اجازت سے کلکتہ چلے گئے۔چند سال وہاں بھی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔مولانا مبارک پوری کے تدریسی سفر کی یہ آخری منزل تھی۔اس کے بعد کسی
[1] حیاتِ شبلی،(ص:۳۰۸)
[2] حیاتِ شبلی،(ص:۳۰۸)
[3] ہندوستان میں اہلِ حدیث کی علمی خدمات،(ص:۱۴۹،۱۵۰)