کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 408
’’عن ابن عباس قال:کان الطلاق علیٰ عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وأبي بکر و سنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ۔فقال عمر بن الخطاب:إن الناس قد استعجلوا في أمر کانت لھم فیہ أناۃ فلو أمضیناہ علیھم فأمضاہ علیھم‘‘[1] [ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا:رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کے دو سال تک اگر کوئی بیک وقت تین طلاق دیتا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی۔پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ اس کام میں جلدی کرنے لگے،جس میں ان کے لیے مہلت تھی،اگر ہم یہی ان پر جاری کر دیں تو اچھا ہو۔پھر انھوں نے تین طلاق نافذ کر دیں ] مسند احمد بن حنبل میں ہے: ’’عن ابن عباس قال:طلق رکانۃ بن عبد یزید أخو بني المطلب امرأتہ ثلاثا في مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیداً۔قال:فسألہ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:کیف طلقتھا؟ قال:طلقتھا ثلاثا۔قال فقال:في مجلس واحد؟ قال:نعم،قال:فإنما تلک واحدۃ فارجعھا إن شئت۔قال:فراجعھا۔فکان ابن عباس رضی اللّٰه عنہما یریٰ إنما الطلاق عند کل طھر‘‘[2] قال ابن القیم في إعلام الموقعین:’’وقد صحح الإمام أحمد ھذا الإسناد وحسنہ‘‘[3] وقال الحافظ في فتح الباري بعد ذکر ھذا الحدیث:’’أخرجہ أحمد وأبو یعلیٰ،وصححہ من طریق محمد بن إسحاق،وھذا الحدیث نص في المسألۃ لا یقبل التأویل الذي في غیرہ من الروایات‘‘[4] انتھیٰ۔ فإن قلت:قال الحافظ في الفتح:إن أبا داود رجح أن رکانۃ إنما طلق امرأتہ البتۃ،کما أخرجہ ھو من طریق آل بیت رکانۃ،وھو تعلیل قوي لجواز أن یکون بعض رواتہ حمل البتۃ علیٰ الثلاث فقال:طلقھا ثلاثا فبھذہ النکتۃ یقف الاستدلال بحدیث ابن عباس۔[5] انتھیٰ قلت:قال ابن القیم في الإغاثۃ:’’إن أبا داود إنما رجح حدیث البتۃ علیٰ حدیث ابن جریج،لأنہ رویٰ حدیث ابن جریج من طریق فیھا مجھول۔۔۔ولم یرو أبو داود الحدیث الذي رواہ أحمد في مسندہ من طریق محمد بن إسحاق أن رکانۃ طلق
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۴۷۲) [2] مسند أحمد (۱/ ۲۶۵) [3] إعلام الموقعین (۳/ ۳۱) [4] فتح الباري (۹/ ۳۶۲) [5] فتح الباري (۹/ ۳۶۳)