کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 405
کتاب الطلاق والخلع بلا وجہ طلاق طلب کرنے والی عورت پر جنت کی خوشبو حرام ہے: سوال:کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلے میں کہ زید اپنی زوجہ ز ینب سے مسائلِ نماز،روزہ وغیرہ یاد کرنے اور لڑکوں کی تعلیم کرنے کا حکم کرتا تھا اور عورات مشرکہ و بدکارہ سے ملنے کو منع کرتا تھا۔وہ عرصہ تک زینب کو اس کی ہدایت کرتا رہا،مگر زینب نے نہیں مانا،بلکہ زید کی اسی ہدایت کی وجہ سے طلاق کی طالب ہوئی اور اس کے سوا طلاق طلب کرنے کی کوئی دوسری وجہ نہیں تھی،بلا کسی وجہ اور ضرورت کے طلاق طلب کرتی رہی،ایسی حالت میں آیا زید خطاوار ہے یا ز ینب؟ اگر زید خطاوار ہے تو بروز جزا اس کی کیا سزا ہوگی اور اگر زینب قصوروار ہے تو بروز جزا اس کی کیا سزا ہوگی؟ سائل:شیخ نثار احمد،ساکن گورکھپور،محلہ شیخوپورہ جواب:ہر شخص پر اپنی زوجہ کو دین کی بات بتانا اور مسائل روزہ،نماز وغیرہ یاد کرانا فرض ہے،نیز عورات فاجرہ و بدکارہ سے ملنے کو منع کرنا بھی ضروری ہے اور لڑکوں کی تعلیم و تربیت کے لیے حکم کرنا بھی ضروری ہے۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: { ٰٓیاََیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا۔۔۔} [التحریم:۶] یعنی اے ایمان والو! بچاؤ اپنی جانوں کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے۔ پس زید اپنی زوجہ کو ہدایت کرنے سے خطاوار نہیں ہے اور بروز جزا اس ہدایت کی وجہ سے کسی سزا کا مستحق نہیں ہے،بلکہ ثواب کا مستحق ہے۔رہا اس کی زوجہ تو وہ اس کی ہدایت اور اس کے حکم نہ ماننے کی وجہ سے بہت بڑی قصور وار ہے۔زید کے محض ہدایت کرنے اور دین کی بات کے بتانے کی وجہ سے طلاق طلب کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے کہ جو عورت بلا ضرورتِ شدیدہ کے اپنے شوہر سے طلاق طلب کرے،اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔مشکاۃ شریف میں ہے: عن ثوبان قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( أیما امرأۃ سألت زوجھا طلاقا في غیر ما بأس فحرام علیھا رائحۃ الجنۃ )) [1] واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔
[1] مسند أحمد (۵/ ۲۷۷) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۲۲۸) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۱۸۷) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۰۵۵) سنن الدارمي (۲/ ۲۱۶)