کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 40
سے طلبا کھچے چلے آئے۔‘‘[1] حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’حضرت مولانا مبارک پوری کے والدِ محترم حافظ عبد الرحیم نے کسی زمانے میں ایک مکان میں درسگاہ قائم کی تھی،جس میں طلبا تعلیم حاصل کرتے تھے۔مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ فارغ التحصیل ہو کر آئے تو انھوں نے بھی درسگاہ میں سلسلہ تعلیم شروع کر دیا۔اس درسگاہ کانام ’’دار التعلیم‘‘ تھا۔اس مدرسے نے بڑی ترقی کی۔تدریس کے علاوہ مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ یہاں فتویٰ نویسی کی خدمت بھی انجام دیتے تھے۔اس مدرسے کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی تھی۔تھوڑی مدت میں مختلف علاقوں کے طلبا کافی تعداد میں اس مدرسے میں داخل ہوئے اور کسبِ علم کیا۔ان طلبا کی وسیع جماعت میں سیرۃ البخاری کے مصنف شہیر مولانا عبد السلام مبارک پوری،دنیاے اسلام کے ممتاز عالم ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی،مولانا عبداللہ نجدی،شارحِ مشکات مولانا عبید اللہ رحمانی مبارک پوری،معروف مصنف و معلم مولانا نذیر احمد رحمانی املوی اور مولانا حکیم خدا بخش رحمہم اللہ شامل ہیں۔ان حضرات نے مدرسہ دار التعلیم میں حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ سے اخذِ علم کیا۔یہ مدرسہ اب بھی قائم ہے اور تشنگانِ علوم اس کے اساتذہ سے استفادہ کرتے ہیں۔‘‘[2] مدرسہ دار التعلیم مبارک پور کے علاوہ حضرت محدث مبارک پوری نے دوسرے جن مدارس میں تدریسی خدمات انجام دیں،ان کی تفصیل یہ ہے: مدرسہ عربیہ بلرام پور ضلع گونڈہ،مدرسہ عربیہ اللہ نگر (بعد میں اس مدرسہ کا نام فیض العلوم ہو گیا)،سراج العلوم کنڈو بونڈیہار،مدرسہ احمدیہ آرہ،مدرسہ دار القرآن والحدیث کلکتہ۔مدرسہ احمدیہ آرہ (بہار) شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۳۲۰ھ) کے تلمیذ رشید مولانا حافظ ابراہیم آروی (المتوفی ۱۳۱۹ھ) نے ۱۸۹۰ء میں قائم کیا۔اس مدرسے کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۹۵۳ء) لکھتے ہیں: ’’درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے ایک فیض یافتہ مولانا براہیم آروی تھے،جنھوں نے سب سے پہلے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی۔‘‘[3] حیاتِ شبلی میں سید صاحب مرحوم لکھتے ہیں: ’’مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے شاگردوں میں مولوی ابراہیم صاحب آروی خاص حیثیت رکھتے
[1] تراجم علماے حدیث ہند،(ص:۴۰۱) [2] دبستان حدیث،(ص:۱۸۶) [3] تراجم علماے حدیث ہند،(ص:۳۶)