کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 395
نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ دودھ سے وہ تمام رشتے حرام ہوتے ہیں،جو نسب سے حرام ہوتے ہیں ؛ ماموں،چچا،بھائی وغیرہ] اسی طرح اور کتابوں میں بھی مرقوم ہے۔خلاصہ یہ کہ درمیان رضاعی ماموں اور بھانجی کے نکاح کا حرام ہونا متفق علیہ ہے،اس میں اختلاف نہیں ہے۔مجیب اول نے جو یہ لکھا ہے کہ ’’اکثر کتابوں بلکہ ساری کتابوں کے باری باری دیکھنے سے اس مسئلے میں کسی کا کچھ خلاف اور اختلاف نہیں معلوم ہوتا،مگر شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ نے مسلم کی شرح میں اہلِ ظواہر اور جماہیر علما میں خلاف اور اختلاف نقل کیا ہے۔‘‘ سو مجیب اول کا یہ لکھا صحیح نہیں ہے۔مجیب اول سے یہاں مسامحہ ہوگیا ہے اور مسامحہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے امام نووی کی عبارت کو غور سے نہیں دیکھا۔ بات یہ ہے کہ مابین اہلِ ظواہر اور جماہیر علما کے مسئلہ مذکورہ میں کچھ اختلاف نہیں ہے،بلکہ رضاعت کے ایک دوسرے مسئلے میں اختلاف ہے اور وہ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ لبن الفحل سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟ یعنی مرضعہ کے شوہر اور رضیع کے درمیان حرمت ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟ سو جماہیر علما کا مذہب یہ ہے کہ حرمت ثابت ہوتی ہے،یعنی مرضعہ کا شوہر،جس کی وجہ سے مرضعہ کو دودھ ہوا ہے،رضیع کا باپ ہوجاتا ہے اور رضیع مرضعہ کے شوہر کا رضاعی لڑکا ہوجاتا ہے اور اس شوہر کی اولاد رضیع کے بہن بھائی ہو جاتے ہیں اور اس شوہر کے بھائی رضیع کے چچا ہوجاتے ہیں اور اس شوہر کی بہنیں رضیع کی پھوپھیاں ہوجاتی ہیں اور رضیع کی اولاد اس شوہر کی اولاد ہوجاتی ہے،یہی مذہب ہے جماہیر علما کا،مگر اہلِ ظواہر اور ابن علیہ کا یہ قول ہے کہ درمیان شوہر مرضعہ اور رضیع کے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔علامہ مازری نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی قول نقل کیا ہے۔ امام نووی شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں: ’’وأما الرجل المنسوب ذلک اللبن إلیہ،لکونہ زوج المرأۃ أو وطئھا بملک أو شبھۃ فمذھبنا ومذھب العلماء کافۃ ثبوت حرمۃ الرضاع بینہ وبین الرضیع ویصیر والدا لہ،وأولاد الرجل إخوۃ الرضیع وأخواتہ،ویکون إخوۃ الرجل أعمام الرضیع وأخواتہ عماتہ،ویکون أولاد الرضیع أولاد الرجل،ولم یخالف في ھذا إلا أھل الظاھر وابن علیۃ فقالوا:لا تثبت حرمۃ الرضاع بین الرجل والرضیع،ونقلہ المازري عن ابن عمر رضی اللّٰه عنہما و عائشۃ،واحتجوا بقولہ تعالیٰ:{وَ اُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ} ولم یذکر البنت والعمۃ کما ذکرھما في النسب،واحتج الجمھور بھذہ الأحادیث الصحیحۃ الصریحۃ في عم عائشۃ وعم حفصۃ،وقولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم مع إذنہ فیہ أنہ یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من الولادۃ،وأجابوا عما احتجوا بہ من الآیۃ أنہ لیس فیھا نص بإباحۃ البنت والعمۃ