کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 393
قال الشیخ شمس الحق المجتھد المطلق بعون الرب الودود في شرح سنن أبي داود المسمی بعون المعبود:’’وقد خالف في ذلک ابن عمر و ابن الزبیر و رافع بن خدیج و عائشۃ،وجماعۃ من التابعین،وابن المنذر و داود وأتباعہ‘‘ [ابن عمر،ابن زبیر،رافع بن خدیج،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کی ایک جماعت اور ابن منذر اور داود اور اس کے اتباع نے اس کی مخالفت کی ہے] یہ تو سب کچھ ہوا مگر یہ ہم نے نہیں لکھا کہ اگر مسائل ظاہر یہ،صحابہ اور صحابیہ (حضرت عائشہ) کے فتوے پر خیال کر کے نکاح کر لیا جائے تو گناہ گار ہو گا یا نہیں تو یہ امر بحث طلب ہے،اگر ظاہریہ پر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہاں صحیح احادیث در بارہ حرمتِ رضاعت کے موجود ہیں اور تم اس کے خلاف میں قرآن کی آیت سے دلیل پکڑتے ہو تو کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو نہ سمجھا تھا؟ تو ہم اس کا یوں جواب دیں گے کہ،عیاذاً باللّٰه،حدیث حرمتِ رضاعت کی جس طرح عام نہیں ہے،اسی طور سے آیت عموم پر دلالت نہیں کرتی اور ہم کہتے ہیں کہ حدیث (( یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من النسب )) کا مطلب یہ ہے کہ جو عورت نسب سے حرام ہوتی ہے وہ عورت رضاعت سے بھی حرام ہوجاتی ہے اور اہلِ ظواہر کا دعویٰ اس سے ثابت ہے،کیونکہ وہ لفظ ’’ما‘‘ کو عام نہیں،بلکہ دو چیزوں میں خاص کر لیتے ہیں،وہ یوں کہ یہ تو ظاہر ہے کہ ماں اور بہن نسبی صاف طور سے حرام ہیں تو جیسے یہ دونوں،یعنی دونوں ماں بہن نسب کی رو سے حرام ہیں،ویسے ہی ماں بہن رضاعت کی جہت سے بھی حرام ہے۔وھذا تطبیق الحدیث والقرآن،وینبغي للناظر أن ینظرہ بالإمعان،لأن لفظ ’’ما‘‘ لا یکون عاما أبدا،بل یکون في کثیر من المقامات خاصا،کما في {عَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ} [النساء:۱۱۳] و {عَلَّمَ الْاِِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ} [العلق:۵] [یہ قرآن اور حدیث میں تطبیق ہے،دیکھنے والے کو غور سے دیکھنا چاہیے،کیوں کہ لفظ ’’ما‘‘ ہمیشہ عام ہی نہیں ہوتا،بلکہ کئی مقامات پر خاص ہوتا ہے،جیسا کہ آیت ہے:’’سکھایا تجھ کو جو کچھ کہ تو نہیں جانتا تھا‘‘ اور ’’انسان کو وہ کچھ سکھایا،جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘] تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض اس حدیث کے بیان کرنے سے یہی ہے کہ حرمتِ رضاعت اسی درجے کی ہے کہ حرمتِ نسب جس درجے کی ہے۔وإلا فیلزم أن عائشۃ وابن عمر وابن الزبیر ورافع بن خدیج خالفوا قول رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم۔حاشا وکلا۔[ورنہ لازم آئے گا کہ حضرت عائشہ،ابن عمر،ابن زبیر اور رافع بن خدیج نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی مخالفت کی] پس ظاہر ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض وہی ہے جو اہلِ ظواہر نے سمجھی تو اگر کسی نے ایسا کر لیا تو قابلِ ملامت نہیں ہے۔لأنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:(( أصحابي کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم )) [1]
[1] یہ حدیث موضوع ہے۔تفصیل کے لیے دیکھیں:الإحکام لابن حزم (۵/ ۶۴) السلسلۃ الضعیفۃ (۶۶)