کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 392
بیٹا ہوجاتا ہے،اس سے نکاح ابداً حرام ہے،نیز اس پر اجماع ہوا ہے کہ اس کی حرمت پھیل جاتی ہے درمیان مرضعہ و اولادِ رضیع کے اور درمیان رضیع و اولادِ مرضعہ کے،کیونکہ وہ رضیع گویا نسب کی جہت سے اس کا بیٹا ہے۔‘‘ اس کے بعد (ص:۴۶۶) یوں فرماتے ہیں: ’’ولم یخالف في ھذا إلا أھل الظاھر وابن علیۃ فقالوا:لا تثبت حرمۃ الرضاعۃ بین الرجل والرضیع،ونقلہ المازري عن ابن عمر و عائشۃ،واحتجوا بقولہ تعالیٰ:{وَ اُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ} ولم یذکر البنت ولا العمۃ کما ذکرھما في النسب‘‘[1] یعنی اس مسئلے میں بجز اہلِ ظاہر و ابن علیہ کے اور کوئی مخالف نہیں ہوا اور بھی انھوں نے کہا ہے کہ رضاعت کی حرمت مرد اور رضیع کے درمیان ثابت نہیں ہے اور اس کو مازری نے ابن عمر و عائشہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے۔ان لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کے قول:{اُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ} [وہ تمھاری وہ مائیں،جنھوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمھاری دودھ کی بہنیں ] سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس میں بنت اور عمہ کا ذکر نہیں کیا،جیسا کہ ان دونوں کو نسب میں ذکر کیا ہے۔ الحاصل جمہور فقہا و اکثر علماے مجتہدین و محدثین محققین کے نزدیک ان دونوں میں نکاح صحیح نہیں ہوگا اور بعض علما کے نزدیک مثل اہلِ ظواہر کے نکاح دونوں کے مابین صحیح ہوگا۔واللّٰه أعلم وعلمہ أتم وحکمہ أکرم۔ حررہ:عبداﷲ گیلانی (تاریخ ۹/ ماہ ربیع الثانی،روز چہار شنبہ ۱۳۲۰ھ) میں نے سائل کے سوال کو بغور و فکر صاف صاف سنا اور مولانا شیخ محمد عبداﷲ صاحب۔دامت فیوضہ۔کے جواب باصواب کو بغور و فکر دیکھا۔مولانا نے ما شاء اﷲ اس مسئلے کی تصریح کما ینبغی برائے تفہیم ہر ذکی و غبی اس تھوڑی سی تحریر بے نظیر میں کر دی ہے۔اب اس کے بعد کسی کی یہ طاقت نہیں ہے کہ مولانا المجیب کے خلاف میں کچھ تقریر بے توقیر لکھ سکے،بجز اس کے کہ حضرت مجیب فیض و برکت کے قول کی تصدیق کرے،کوئی چارہ نہیں ہے،کیونکہ مفتی نے مستفتی کے سوال کا جواب بطور انصاف بذکرِ خلاف و اختلاف صاف صاف تحریر فرمایا ہے۔عینی بھانجی کا نکاح میں لانا بنص قرآنی {وَبَنٰتُ الْاُخْتِ} حرام ہے،رہی رضاعی بھانجی تو ایک اہلِ ظواہر کے نزدیک اس سے نکاح حلال ہے،ہاں امام نووی نے اہلِ ظواہر و ابن علیہ کا مسئلہ ہذا میں جمہور سے خلاف ہونا نقل کیا ہے اور اس میں کل مخالفین محققین صحابہ و تابعین کا ذکر نہیں کیا،اس لیے میں ان کا ذکر کیے دیتا ہوں:
[1] شرح صحیح مسلم للنووي (۱۰/ ۱۹)