کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 391
رہے) کہ حرمت فقط رضاعی ماں بہن پر ہی موقوف نہیں (بلکہ ان کی اولاد میں بھی یہی حکم ہے) کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو (عورت) نسب کی رو سے حرام ہے،وہ (عورت) رضاعت کی جہت سے بھی حرام ہے۔‘‘ راس الاحناف قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تفسیر مظہری میں اسی آیت کے تحت میں یوں فرمایا ہے: ’’کذا العمات والخالات وبنات الأخ وبنات الأخت من الرضاعۃ إجماعاً لقولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم:یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب‘‘[1] انتھیٰ ’’جو حکم ماں بہن رضاعی کا ہے،وہ حکم پھوپھی،خالہ،بھتیجی،بھانجی رضاعی کا ہے اجماعاً،بحسب قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ جو (عورت) حرام ہوتی ہے نسب کے رو سے وہ (عورت) رضاعت کی جہت سے بھی حرام ہے۔‘‘ امام احمد بن محمد بن خطیب قسطلانی (ص:۲۴) نے بذیلِ لفظ حدیث یوں فرمایا ہے: ’’تحرم من الرضاعۃ ما تحرم من الولادۃ من تحریم النکاح ابتداء ودواما وانتشارا لحرمۃ بین الرضیع وأولاد المرضعۃ فیحرم علیھا ھو ویحرم علیھا فروعہ من النسب والرضاع‘‘[2] انتھیٰ ’’جو عورت بہ سبب نسب کے حرام ہوتی ہے وہ عورت بہ سبب رضاع کے بھی حرام ہوتی ہے۔یہ سبب تحریم نکاح ابدی و دوامی کے اور بوجہ پھیل جانے حرمت کے مابین رضیع (دودھ پینے والا) اور اولادِ مرضعہ (دودھ پلانے والی) کے ہے،تو خود وہ لڑکا بھی اس پر حرام ہوجائے گا اور اس کی اولاد بھی جو رضاعت والنسب ہو،وہ بھی حرام ہوجائے گی۔‘‘ ان سب کتابوں کی عبارتوں سے دعویٰ و مسلک جمہور کا ثابت ہے۔اب امام نووی کی محررہ عبارت (ص:۴۶۶) نقل کرتا ہوں: ’’أجمعت الأمۃ علیٰ ثبوتھا بین الرضیع والمرضعۃ،وأنہ یصیر ابنھا،یحرم علیہ نکاحھا أبدا،۔۔۔وأجمعوا أیضاً علیٰ انتشار الحرمۃ بین المرضعۃ وأولاد الرضیع وبین الرضیع وأولاد المرضعۃ فإنہ في ذلک کولدھا من النسب‘‘[3] انتھیٰ ’’امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ درمیان رضیع اور مرضعہ کے نکاح حرام ہے اور یہ کہ وہ لڑکا مرضعہ کا
[1] التفسیر المظھري (۲/ ۵۷) [2] إرشاد الساري للقسطلاني (۸/ ۲۹) [3] شرح صحیح مسلم للنووي (۱۰/ ۱۹)