کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 39
ڈاکٹر عین الحق قاسمی،حکیم سیف الرحمان احوذی کے ایک مکتوب میں بنام مولانا عبدالکبیر صاحب لکھتے ہیں:
’’مولانا محدث مبارک پوری رحمہ اللہ کی پہلی شادی اعظم گڑھ میں،دوسری محلہ حیدرآباد مبارک پور میں،تیسری املو مبارک پور میں،جن کا نام ہاجرہ تھا اور چوتھی مجیدہ دادی کی والدہ ماجدہ (بیوہ حکیم محمد شفیع صاحب،جو مولانا محدث مبارک پوری کے بڑے بھائی تھے) سے ہوئی،جن کا نام رابعہ تھا۔اس طرح مولانا نے چار شادیاں کیں،لیکن کسی کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ہر ایک زوجہ نے انتقال کیا تھا نہ کہ مولانا نے طلاق دی تھی۔مولانا مبارک پوری کے بھتیجے حاجی عبد السلام نے اپنے والد جناب حکیم محمد شفیع صاحب کے حوالے سے راقم الحروف کو بتایا کہ مولانا محدث مبارک پوری کی پہلی شادی کے بعد پیشاب میں کوئی شکایت ہوئی تھی،اس لیے اپریشن کرایا تھا،جس کی وجہ سے کوئی اولاد نہیں تھی۔‘‘[1]
تدریسی خدمات:
فراغتِ تعلیم کے بعد مولانا مبارک پوری نے درس و تدریس کا آغاز کیا اور تدریس کا آغاز اپنے والدِ محترم کے مدرسہ ’’دار التعلیم‘‘ سے کیا۔مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حضرت محدث مبارک پوری رحمہ اللہ تعلیم سے فراغت کے بعد تدریس و تصنیف میں مشغول ہو گئے۔طبابت کا فن انھیں اپنے والدِ گرامی سے حاصل ہوا تھا۔اس لیے طبابت اور افتا سے آپ کا گہرا تعلق تھا۔والد محترم نے جو مدرسہ گھر میں بنا رکھا تھا،اس کو انھوں نے ترقی دی اور اس کا نام ’’دار التعلیم‘‘ رکھا،جس میں ایک مدت تک درس و تدریس،تعلیم و تربیت کااہتمام کیا۔مدرسے کی شہرت ہر چہار جانب پھیلی تو تمام اطراف سے تشنگانِ علم نے وہاں کا رخ کیا۔‘‘[2]
شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ (المتوفی ۲۰۰۸ء) لکھتے ہیں:
’’تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے وطن مالوف مبارک پور میں ڈیرا ڈال دیا اور ’’دار التعلیم‘‘ کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھ دی۔کچھ عرصہ آپ اس مدرسے میں رونق افروز رہے اور درس و تدریس کے ذریعے ہزاروں تشنگانِ علوم کو فیض پہنچاتے رہے۔‘‘[3]
جماعت اہلِ حدیث کے نامور مصنف اور ادیب ابو یحییٰ امام خان نوشہروی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۹۶۶ء) اپنی کتاب ’’تراجم علماے حدیث ہند‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’فراغ کے بعد اپنے مسکن (مبارک پور) ہی میں مسندِ تدریس کو مزین فرمایا،جس کی شہرت سن کر دور دور
[1] مولانا محمد عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمہ اللہ،حیات و خدمات،(ص:۷۳،۷۴)
[2] مقالاتِ مبارک پوری،(ص:۲۶)
[3] المقالۃ الحسنیٰ،(ص:۵،۶)