کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 384
یوم القیامۃ،فمن کان عندہ منھن شییٔ فلیخل سبیلھا،ولا تأخذوا مما آتیتموھن شیئا‘‘[1] یعنی ربیع بن سبرہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ نے ان سے حدیث بیان کی کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے،پس آپ نے فرمایا کہ میں نے تم کو عورتوں سے متعہ کرنے کے بارے میں اذن دیا تھا اور اﷲ تعالیٰ نے اس کو قیامت تک کے لیے حرام کر دیا،پس جس کے پاس متاعی عورتوں میں سے کوئی متاعی عورت ہو تو چاہیے کہ اس کو چھوڑ دے اور جو کچھ خرچی اس کو دیا ہو،اس میں سے کچھ نہ لے۔اس کو مسلم نے روایت کیا۔ متعہ کے حرام اور منسوخ ہونے کے بارے میں اور کئی حدیثیں آئی ہیں،طوالت کی وجہ سے نقل نہیں کی گئیں۔واﷲ أعلم بالصواب۔ حررہ:علی احمد مدراسی (یکم ماہ رجب ۱۳۱۶ھ) سید محمد نذیر حسین هو الموافق علامہ حازمی کتاب الاعتبار (ص:۱۷۸) میں لکھتے ہیں کہ ابتداے اسلام میں متعہ مباح و مشروع تھا اور فقط سفر میں مباح تھا۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو کئی بار مباح کیا،یہاں تک کہ اپنے آخر ایام میں حجۃ الوداع میں اس کو ہمیشہ کے لیے حرام کر دیا،پس اب باتفاق فقہائے امصار و ائمہ امت متعہ حرام ہے،مگر ہاں بعض شیعہ اس کو جائز بتاتے ہیں اور ابن جریج سے بھی اس کا جواز مروی ہے،پھر علامہ حازمی نے اپنے اس دعوے کے ثبوت میں متعدد حدیثیں نقل کی ہیں۔من أراد الاطلاع علیھا فلیراجع الاعتبار۔[2] علامہ ممدوح نے جو یہ لکھا ہے کہ ابن جریج سے بھی اس کا جواز مروی ہے،سو واضح رہے کہ ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں لکھا ہے کہ ابن جریج نے اس سے رجوع کر لیا تھا۔حافظ ابن حجر فتح الباری (۲۱/۶۲) میں لکھتے ہیں: ’’قال الخطابي:ویحکی عن ابن جریج جوازھا،وقد نقل أبو عوانۃ في صحیحہ عن ابن جریج أنہ رجع عنھا بعد أن روی بالبصرۃ في إباحتھا ثمانیۃ عشر حدیثا‘‘ انتھیٰ،واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ [امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے:ابن جریج سے اس کا جواز بیان کیا جاتا ہے۔ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں ابن جریج سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے اس کی اباحت پر اٹھارہ احادیث بیان کرنے کے بعد اس سے رجوع کر لیا تھا] کتبہ:محمد عبد الرحمن،عفا اللّٰه عنہ۔[3]
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۴۰۶) [2] الاعتبار (۱/ ۱۷۶) [3] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۴۶۵)