کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 383
جواب:جاننا چاہیے کہ عموم آیت:{وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ . اِِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ . فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْعَادُوْنَ} [المؤمنون:۵ تا ۷] یعنی وہ لوگ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں،مگر اپنی بیبیوں پر اور لونڈیوں پر جن کے مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ،پس بے شک وہ لوگ نہیں ملامت کیے گئے،پس جو کوئی سوا اس کے چاہے تو وہ حد سے بڑھنے والے ہیں۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ جو شخص اپنی زوجہ منکوحہ یا لونڈی مملوکہ کے علاوہ کسی اور قسم کی بے نکاحی عورت مثل متاعی عورت وغیرہ سے فائدہ اٹھائے،وہ اﷲ تعالیٰ کی مقررہ حد سے تجاوز کرنے والا ہے۔پس اس آیت سے متعۃ النساء کی حرمت صاف ظاہر ہے،نیز اﷲ تعالیٰ نے سورت نساء میں فرمایا:{وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً} [النساء:۲۴] مولانا شاہ عبدالقادر صاحب اس آیت کا ترجمہ یوں فرماتے ہیں:اور حلال ہوئیں تم کو جو ان کے سوا ہیں یوں کہ طلب کرو اپنے مال کے بدلے قید میں لانے کو نہ مستی نکالنے کو،پھر جو کام میں لائے تم ان عورتوں میں سے ان کو دو ان کے حق جو مقرر ہوئے۔ پھر اس آیت کے فائدے میں لکھتے ہیں:یعنی جو عورتیں حرام فرمائیں ان کے سوائے سب حلال ہیں،لیکن چار شرط سے:اول یہ کہ طلب کرو،یعنی زبان سے ایجاب و قبول درمیان آئے،دوسرے یہ کہ مال دینا قبول کرو،یعنی مہر،تیسرے یہ کہ قید میں لانے کی طرح ہو،مستی نکالنے کی نہ ہو،یعنی ہمیشہ کو وہ عورت اس مرد کی ہو جائے،اس کے چھوڑے بغیر نہ چھوٹے،یعنی مدت کا ذکر نہ آئے کہ مہینے تک یا برس تک اس سے متعہ حرام ٹھہرا،الخ۔ اس آیت سے بھی متعہ کا حرام ہونا صاف ظاہر ہوا،کیونکہ متعہ میں قید میں لانے کی غرض نہیں،وہاں تو صبح کہیں اور شام کہیں کا مضمون رستا ہے۔اہلِ تشیع کا آیت {فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہِ مِنْھُنَّ الخ} سے متعہ کے جواز پر دلیل کرنا قرآن کے مذاق سے ناواقفیت ظاہر کرنا ہے،کیونکہ اس آیت کو متعہ سے کوئی علاقہ ہی نہیں ہے۔اس آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ جب تم نے نکاح کرنے کے بعد اپنی منکوحہ عورتوں سے فائدہ اٹھایا،یعنی صحبت کی یا خلوتِ صحیحہ ہوئی تو ان کو پورا مہر دینا ضروری ہوا۔اگر کوئی اہلِ تشیع حضرت عبد اﷲ بن مسعود کی قراء ت { اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمّٰی} سے حلت متعہ ثابت کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ عبد اﷲ بن مسعود کی یہ قراء ت،قراء تِ مشہورہ کے خلاف ہے،لہٰذا اس قراء تِ شاذہ سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوسکتا اور اگر بالفرض والتقدیر اس قراء تِ شاذہ سے حکم حلتِ متعہ ثابت ہو تو حدیث سبرہ جہنی کی جو صحیح مسلم میں مروی ہے،اس حکم کی ناسخ ہوگی: ’’عن الربیع بن سبرۃ الجھني أن أباہ حدثہ أنہ کان مع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال:یا أیھا الناس! إني قد کنت أذنت لکم في الاستمتاع من النساء،وإن اللّٰه قد حرم ذلک إلی