کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 371
کپڑا دستور کے مطابق تمھارے ذمے ہے] نیز ہدایہ میں ہے: ’’ونفقۃ الأولاد الصغار علیٰ الأب،لا یشارکہ فیھا أحد،کما لا یشارکہ في نفقۃ الزوجۃ،لقولہ تعالیٰ:{وَ عَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُھُنَّ} والمولود لہ ھو الأب،وفیہ أیضاً:ونفقۃ الصغیر واجبۃ علیٰ أبیہ وإن خالفہ في دینہ،کما تجب نفقۃ الزوجۃ علیٰ الزوج وإن خالفتہ في دینہ‘‘[1] انتھیٰ [چھوٹے بچوں کا خرچ باپ کے ذمے ہے۔اس میں اور کوئی بھی شریک نہ ہو گا،جیسے بیوی کے نفقے میں اور کوئی شریک نہیں ہوتا۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور باپ کے ذمے ہے،ان کا خرچ‘‘ چھوٹے بچے کا خرچ باپ کے ذمے رہے گا،اگرچہ وہ دین میں اس کے مخالف ہو،جیسے کہ بیوی کا خرچہ واجب ہوتا ہے،اگرچہ وہ دین میں اس کے مخالف ہو] بلوغ المرام میں ہے: ’’عن حکیم بن معاویۃ عن أبیہ قال:قلت:یا رسول اللّٰه! ما حق زوج أحدنا علیہ؟ قال:تطعمھا إذا أکلتَ،وتکسوھا إذا اکتسیتَ‘‘[2] الحدیث۔ [حکیم بن معاویہ نے پوچھا:اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب تو کھائے تو اس کو بھی کھلا اور جب تو پہنے تو اس کو بھی پہنا] نیز بلوغ المرام میں ہے: ’’عن عبد اللّٰه بن عمر رضی اللّٰه عنہما قال:قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:کفیٰ بالمرء اثماً أن یضیع من یقوت‘‘[3] رواہ النسائي،وھو عند مسلم بلفظ:’’أن یحبس عمن یملک قوتہ‘‘[4] [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ جن کی روزی ان کے ذمے ہے،ان کو ضائع کر دے] خلاصہ یہ کہ زید پر اس کی زوجہ ہندہ کا نان و نفقہ اور اس کے خرد سال بچوں کا نان و نفقہ فرض و واجب ہے اور ہندہ کو دعویٰ کرنے اور طلب کرنے کا استحقاق حاصل ہے۔ہندہ اس صورت میں اگر بقدرِ کفایت اپنے اور اپنے بچوں کے بلا اطلاع زید کے اس کے مال سے چپکے سے لے لے تو جائز ہے۔
[1] الھدایۃ (۱/ ۲۹۱) [2] مسند أحمد (۴/ ۴۴۷) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۱۴۲) سنن النسائي،رقم الحدیث (۲۸۹) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۱۸۵۰) بلوغ المرام،رقم الحدیث (۱۰۲۸) [3] سنن النسائي،رقم الحدیث (۲۹۴) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۶۹۲) [4] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۹۹۶)