کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 37
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے علم و فضل کا اعتراف:
مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ حضرت شیخ الکل کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’میاں صاحب علومِ حدیث میں وقت کے امام بخاری تھے۔فقہ و اجتہاد میں امام ابو حنیفہ تھے،عربیت میں سیبویہ تھے،بلاغت میں جرجانی تھے،تصوف اور سلوک و عرفان میں شبلی تھے،زہد و تقویٰ میں ابن ادہم تھے۔حق گوئی اور صبر و استقامت میں امام ابن حنبل تھے۔‘‘[1]
علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی کے حلقہ درس میں:
دہلی میں حضرت میاں صاحب دہلوی سے سندِ فراغت حاصل کرنے کے بعد مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ بھوپال تشریف لے گئے۔بھوپال کے قیام کی غرض و غایت علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی کے درسِ حدیث میں شرکت اور ان سے استفادہ تھا۔مولانا سیدابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۹۹۹ء) لکھتے ہیں:
’’شیخ حسین بن محسن کا وجود اور ان کا درسِ حدیث ایک نعمتِ خداو ندی تھا،جس سے ہندوستان اس وقت بلادِ مغرب کا ہمسر بنا ہوا تھا اور اس نے ان جلیل القدر شیوخِ حدیث کی یاد تازہ کر دی تھی،جو اپنے خداداد حافظہ،علوِ سند اور کتبِ حدیث و رجال پر عبور کامل کی بنا پر خود ایک زندہ کتب خانہ کی حیثیت رکھتے تھے۔شیخ حسین بہ یک واسطہ علامہ محمد بن علی شوکانی صاحبِ ’’نیل الأوطار‘‘ کے شاگرد تھے اور ان کی سند بہت عالی اور قلیل الوسائط سمجھی جاتی تھی۔وہ ہندوستان آئے تو علما و فضلا نے (جن میں بہت سے صاحبِ درس اور صاحبِ تصنیف بھی تھے) پروانہ وار ہجوم کیا اور فنِ حدیث کی تکمیل کی اور ان سے سند لی۔‘‘[2]
شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز رحمہ اللہ (المتوفی ۲۰۰۸ء) لکھتے ہیں:
’’(حضرت میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے سندِ فراغت کے بعد) مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام حسین بن محسن انصاری الیمانی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضری دی اور صحاح ستہ کے علاوہ موطا امام مالک،مسند دارمی،مسندشافعی،مسند امام احمد بن حنبل،الادب المفرد للبخاری،معجم صغیر طبرانی اور سنن دارقطنی کی قراء ت کر کے آپ سے روایتِ حدیث کی اجازت حاصل کی۔آپ کے اس شیخ کا علمی دنیا میں اتنا اونچا مقام ہے کہ علمِ رجال میں آپ زمانے کے ذہبیِ وقت،دقتِ نظر میں ابن دقیق العید،حفظ و اِتقان میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تھے۔علم کے ایسے سمندر تھے،جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں۔‘‘[3]
[1] مقدمہ تحفۃ الأحوذي،(ص:۱۹۱)
[2] حیاتِ عبد الحی،(ص:۶۳) طبع دہلی ۱۹۷۰ء۔
[3] المقالۃ الحسنیٰ،(ص:۵)