کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 367
[امام مالک رحمہ اللہ یحییٰ بن سعید سے روایت کرتے ہیں،وہ سعید بن المسیب سے روایت کرتے ہیں،وہ عمر بن خطاب سے بیان کرتے ہیں کہ جس عورت کا خاوند گم ہوجائے اور اسے کچھ معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں چلا گیا ہے،تو وہ چار سال اس کا انتظار کرے،پھر چار ماہ دس دن عدت گزار کر حلال ہوجائے] ’’واتفق علی ذلک خمسۃ من الصحابۃ،منھم الخلیفۃ الراشد الناطق بالصواب عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ،والخلیفۃ الراشد ذو النورین عثمان بن عفان رضی اللّٰه عنہ کذا قالہ الحافظ في فتح الباري،لأنہ منع حقھا بالغیبۃ فینوب القاضي منابہ في التسریح بإحسان،وھو مؤید بقولہ تعالیٰ:{فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ} [البقرۃ:۲۲۹] وقولہ تعالیٰ:{فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا} [البقرۃ:۲۳۱] وأیضاً یؤیدہ تأجیل العنین سنۃ مع أنہ ینفق ویکسو ویتعھد بما لا بد منہ مع بقاء الاحتمال علی صحتہ بعد السنۃ،وقدرتہ علی الجماع،والغائب لا یعلم حالہ،ولا ینفق ولا یتعھد و لا یقدر بالفعل علی أمر فکیف لا یفتیٰ بعد أربع سنین بنکاح جدید؟‘‘ (التعلیق المغني علی سنن الدارقطني،ص:۴۲۱) واللّٰه أعلم بالصواب۔ [پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس پر اتفاق کیا ہے:ان میں سے ایک خلیفہ راشد ناطق بالصواب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور خلیفہ راشد ذوالنورین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں یہی کہا ہے،کیونکہ اس (گم شدہ خاوند) نے غیب رہ کر اس (عورت) کا حق روکا ہوا ہے،لہٰذا قاضی اس (خاوند) کا قائم مقام بن کر اس عورت کو اچھے انداز میں رخصت کر دے گا۔اس موقف کی تائید اس فرمانِ باری تعالیٰ سے بھی ہوتی ہے:{فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ} [پھر یا تو اچھے طریقے سے رکھ لینا ہے،یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے] نیز اس کا فرمان ہے:{فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا} [تو انھیں اچھے طریقے سے رکھ لو یا انھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دو اور انھیں تکلیف دینے کے لیے نہ روکے رکھو] اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ نامرد کی مدتِ مہلت ایک سال مقرر کی گئی ہے،باوجود اس کے کہ وہ نان و نفقہ اور لباس دیتا ہے،اس پر جو ضروری ہے،اس کے دینے کا عہد کرتا ہے اور سال کے بعد اس کے صحت یاب ہونے اور جماع پر قادر ہونے کا احتمال بھی ہوتا ہے،جب کہ گم شدہ آدمی کے احوال کا کچھ علم نہیں ہوتا،نہ وہ نان و نفقہ دیتا ہے نہ کوئی عہد و معاہدہ کرتا ہے اور بالفعل کسی معاملے کی قدرت نہیں رکھتا تو آخر چار سال کے بعد (اس کی بیوی کو) نئے نکاح کا فتویٰ کیوں نہ دیا جائے؟]