کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 365
جاتا ہے۔پس ثابت ہوا کہ اسلام کے اصول جلی ہیں،اس کے دلائل اجمالاً واضح ہیں،اسی لیے ان کی ٹوہ نہیں لگائی جاتی۔برخلاف ان مسائل کے جن میں اختلاف ہوا ہے،کیوں کہ وہ ظہور میں ان مسائل کی طرح نہیں ہیں،بلکہ ان میں سے اکثر وہ ہیں کہ جو کتاب و سنت میں وارد ہوا ہے،اس کو مبطل اس کے معارض و مخالف نہیں سمجھتا،جس سے حق گو دلیل پکڑتا ہے،ان میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تاویل جو اس کے مذہب کے مطابق ہے،وہی اولیٰ ہے۔پس اس کو یہ مقام دینا ممکن نہیں ہے،جس پر اسلام کا صحیح ہونا موقوف ہو،پس کسی کو کافر قرار دینے میں کوئی اقدام کرنا جائز نہیں ہے،کیوں کہ اس میں بہت بڑا خطرہ ہے] واﷲ أعلم بالصواب۔ کتبہ:محمد عبد اﷲ (مہر مدرسہ) الجواب صحیح عندي،واللّٰه أعلم بالصواب۔محمد ضمیر الحق،عفي عنہ۔أصاب من أجاب۔وصیت علی۔الجواب صحیح عندي،واللّٰه أعلم الصواب۔أبو محمد إبراہیم۔الجواب صحیح۔أبو العلیٰ محمد عبدالرحمن،عفي عنہ[1] بیوی کی رہایش خاوند کے ذمے ہے: سوال:علمائے دین اس مسئلے میں کیا فرماتے ہیں کہ ایک شخص کا نکاح حالتِ نابالغی میں ہوا تھا۔سولہ برس کے بعد اس کی عورت اس کے پاس آئی ہے۔وہ ایک شخص کے مکان پر رہتا ہے اور وہ علاحدہ مکان لینے کو کہتی ہے،لیکن وہ نہیں لیتا ہے۔وہ عورت خود مکان علاحدہ لے کر رہ سکتی ہے یا نہیں ؟ اس میں خدا اور رسول کے موافق کیا حکم ہے؟ جواب:صورت مذکورہ میں عورت علاحدہ مکان نہیں لے سکتی،اس لیے کہ مردوں کے حق میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:{ اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ} یعنی ٹھہراؤ تم اپنی عورتوں کو جہاں تم ٹھہرتے ہو۔دوسری جگہ فرمایا:{ لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَۃ} یعنی چاہیے کہ خرچ کریں صاحبِ مقدور اپنے مقدور کے موافق،پس شخص مذکور اپنے مقدور اور حیثیت کے مطابق جیسی گنجائش دیکھے،اپنی بی بی کو مکان وسیع یا غیر وسیع میں رکھے،اس سے زیادہ عورت کو حق نہیں پہنچ سکتا۔واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ حررہ:أحمد علی،عفي عنہ۔ سید محمد نذیر حسین هو الموافق صورتِ مسئولہ میں ایک غیر شخص کے مکان پر اس عورت کو رکھنے میں اس عورت کا ضرر ہے،لہٰذا اس کے شوہر کو چاہیے کہ اس کو ایک علاحدہ مکان میں رکھے۔ قال اللّٰه تعالیٰ:{اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُجْدِکُمْ وَلاَ تُضَآرُّوْھُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْھِنَّ} [الطلاق:۶]
[1] مجموعہ فتاویٰ غازی پوری،(ص:۴۲۲)