کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 364
نے بھی ایسا نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ دینِ اسلام کی صحت ان مسائل میں حق کی معرفت پر موقوف نہیں ہے اور ان میں غلطی حقیقتِ اسلام میں قادح نہیں ہے۔اگر حقیقتِ اسلام ان مسائل پر موقوف ہوتی اور اس حقیقت میں غلطی کرنا قادح ہوتا تو پھر یہ بھی واجب ہوتا کہ ان مسائل میں ان کے اعتقاد کی کیفیت کو معلوم کیا جائے اور اس کا کھوج لگایا جائے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور نہ صحابہ و تابعین کے زمانے میں ان مسائل میں سے کسی پر بات نہیں چلی۔ اگر کہا جائے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کے ان اعتقادات کا اجمالی علم ہونا معلوم ہو،اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کھوج نہیں لگایا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اﷲ تعالیٰ کے علم و قدرت کے علم کا کھوج نہیں لگایا،باوجود اس کے کہ ان دونوں کا اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ایسا اس لیے ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ وہ اجمالی طور پر اس بات کو جانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ عالم و قادر ہے اور یہی حال مذکورہ بالا اختلافی مسائل کا تھا۔ ہم اس کے جواب میں کہیں گے:جو کچھ تم نے اس اشکال میں ذکر کیا ہے وہ تو محض عناد اور سینہ زوری ہے،کیوں کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ وہ بدو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے،وہ سب اس بات کا علم نہیں رکھتے تھے کہ اﷲ تعالیٰ عالم بالعلم ہے،نہ کہ بالذات اور یہ کہ وہ عالم آخرت میں دکھائی دے گا،وہ جسم نہیں ہے،وہ کسی مکان میں ہے نہ جہت میں،وہ تمام افعالِ عباد پر قادر ہے اور وہ ان تمام کا موجد ہے۔پس یہ کہنا کہ وہ ان چیزوں کا علم رکھنے والے تھے،یہ ان چیزوں سے ہے،جس کا فساد یقینی طور پر معلوم ہے۔رہا اس کا علم اور اس کی قدرت تو یہ دونوں ان چیزوں سے ہے،جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت موقوف ہے،کیوں کہ معجزے کی دلالت ان دونوں پر موقوف ہے،اگرچہ وہ اجمالی ہو،اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بحث اور تفتیش نہیں کی۔ امام رازی رحمہ اللہ نے کہا:وہ اصول جن پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا صحیح ہونا موقوف ہے،ان کے دلائل اس لائق ہیں کہ وہ اونٹوں والوں پر بھی ظاہر و واضح ہیں۔پس جو شخص ایک باغ میں داخل ہوا،وہاں اس نے کچھ نوپیدا پھول دیکھے،جو پہلے نہیں تھے،پھر اس نے انگوروں کا ایک گچھا دیکھا،جس کے تمام دانے سوائے ایک دانے کے (پک کر) سیاہ ہوچکے تھے،باوجود اس کے کہ ان سب کو پانی،ہوا اور سورج یکساں طور پر تمام جہات سے میسر آئی۔تو وہ یہ جاننے پر مجبور ہوگا کہ اس کا موجد فاعلِ مختار ہے،کیوں کہ محکم فعل کی اپنے فاعل کے علم اور اس کے اختیار پر دلالت ضروری اور یقینی ہے۔اسی طرح معجزے کی دلالت مدعی کی صداقت پر یقینی ہوتی ہے۔جب یہ اصول معلوم ہو جائیں تو رسول کی صداقت کا معلوم ہوجانا ممکن بن