کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 363
اعتقادھم فیھا،لکن لم یجر حدیث فی شییٔ منھا في زمانہ،ولا في زمانھم أصلا۔ ’’فإن قیل لعلہ عليه الصلوٰة والسلام عرف منھم ذلک أي کونھم عالمین بھا إجمالا فلم یبحث عنھا لذلک،کما لم یبحث عن علمھم بعلمہ وقدرتہ مع وجوب اعتقادھما،وما ذلک إلا بعلمہ بأنھم عالمون علی طریق الجملۃ بأنہ تعالیٰ عالم قادر،فکذا الحال في تلک المسائل۔قلنا:ما ذکرتم،مکابرۃ،لأنا نعلم أن الأعراب الذین جاؤا إلیہ عليه الصلوٰة والسلام ما کانوا کلھم عالمین بأنہ تعالیٰ عالم بالعلم لا بالذات،وأنہ مرئي في الدار الآخرۃ،وأنہ لیس بجسم،ولا في مکان وجھۃ،وأنہ قادر علی أفعال العباد کلھا،وأنہ موجد لھا بأسرھا،فالقول بأنھم کانوا عالمین بھا مما علم فسادہ بالضرورۃ،وأما العلم والقدرۃ فھما مما یتوقف علیہ ثبوت نبوتہ لتوقف دلالۃ المعجزۃ علیھما،فکان الاعتراف والعلم بھا أي بالنبوۃ دلیلا للعلم بھما،ولو إجمالا فلذلک لم یبحث عنھما۔ ’’قال الإمام الرازي:الأصول التي یتوقف علیھا صحۃ نبوۃ محمد عليه الصلوٰة والسلام أدلتھا علی ما یلیق بأصحاب الجمل ظاھرۃ،فإن من دخل بستانا،ورآی أزھارا حادثۃ بعد أن لم تکن،ثم رآی عنقود عنب،قد اسود جمیع حباتہ إلا حبۃ واحدۃ مع تساوي نسبۃ الماء والھواء وحر الشمس إلی جمیع تلک الجھات،فإنہ یضطر إلی العلم بأن محدثہ فاعل مختار،لأن دلالۃ الفعل المحکم علی علم فاعلہ واختیارہ ضروریۃ،وکذا دلالۃ المعجزۃ علی صدق المدعي ضروریۃ أیضاً،وإذا عرف ھذہ الأصول أمکن العلم بصدق الرسول فثبت أن أصول الإسلام جلیۃ،وأن أدلتھا مجملۃ واضحۃ،ولذلک لم یبحث عنھا بخلاف المسائل التي اختلف فیھا،فإنھا في الظھور والجلاء لیس مثل تلک الأصول،بل أکثرھا مما ورد في الکتاب والسنۃ ما یتخیلہ المبطل معارضا لما یحتج المحق فیھا،وکل واحد منھا یدعي أن التأویل المطابق لمذھبہ أولیٰ فلا یمکن جعلھا مما یتوقف علیہ صحۃ الإسلام فلا یجوز الإقدام علیٰ التکفیر،إذ فیہ خطر عظیم‘‘[1] انتھیٰ [رہا یہ مسئلہ کہ ہمارے نزدیک مختار مذہب کیا ہے؟ تو وہ یہ ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے کسی کو کافر نہ کہو۔یقینا وہ مسائل جن میں اہلِ قبلہ نے اختلاف کیا ہے،جیسے اﷲ تعالیٰ کا علم کے ساتھ عالم ہونا یا بندے کے فعل کا موجد ہونا یا اس کا جہت میں متحیز نہ ہونا اور اسی طرح وہ دکھائی دے گا یا نہیں۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کے اسلام کا حکم لگایا تو ان مسائل میں اس کے اعتقاد کے بارے میں کھوج نہیں لگائی۔صحابہ و تابعین
[1] شرح المواقف للجرجاني (۸/۳۷۰،۳۷۱)