کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 362
’’المقصد الخامس في أن المخالف للحق من أھل القبلۃ ھل یکفر أم لا؟ جمھور المتکلمین والفقھاء علی أنہ لا یکفر أحد من أھل القبلۃ،فإن الشیخ أبا الحسن قال في أول کتاب مقالات الإسلامیین:اختلف المسلمون بعد نبیھم علیہ السلام في أشیاء،ضلل بعضھم بعضا،وتبرأ بعضھم عن بعض،فصاروا فرقا متباینین إلا أن الإسلام یجمعھم ویعمھم فھذا مذھبہ،وعلیہ أکثر أصحابنا،وقد نقل عن الشافعي أنہ قال:لا أرد شھادۃ أحد من أھل الأھواء إلا الخطابیۃ،فإنھم یعتقدون حل الکذب،وحکی الحاکم صاحب المختصر في کتاب المنتقیٰ عن أبي حنیفۃ رحمه اللّٰه أنہ لم یکفر أحدا من أھل القبلۃ،وحکی أبو بکر الرازي مثلہ عن الکرخي وغیرہ‘‘[1] انتھیٰ [پانچواں مقصد اس بارے میں کہ اہلِ قبلہ میں سے حق کی مخالفت کرنے والے کو کافر کہا جائے گا یا نہیں ؟ جمہور متکلمین اور فقہا کا یہ موقف ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے کسی کو کافر نہ کہا جائے۔شیخ ابو الحسن رحمہ اللہ نے کتاب ’’مقالات الإسلامیین‘‘ کے آغاز میں لکھا ہے:مسلمانوں نے اپنے نبی کے بعد کئی ایک چیزوں میں اختلاف کیا،ایک نے دوسرے کو گمراہ کہا،ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کیا،پس وہ اس طرح مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے،ہاں ان کو اسلام عمومی طور پر جمع کرتا ہے،پس یہ ان کا مذہب ہے اور اس مذہب پر ہمارے اکثر اصحاب قائم ہیں۔امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے کہا:میں اہلِ اہوا میں سے خطابیہ فرقے کے سوا کسی کی گواہی رد نہیں کرتا،کیوں کہ وہ جھوٹ کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔حاکم صاحب المختصر نے کتاب المنتقیٰ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ اہلِ قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے۔ابوبکر رازی رحمہ اللہ نے بھی کرخی رحمہ اللہ وغیرہ سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے] پھر اسی صفحہ میں ہے: ’’أما علی ما ھو المختار عندنا،وھو أن لا یکفر أحد من أھل القبلۃ،إن المسائل التي اختلف فیھا أھل القبلۃ من کون اللّٰه عالما بعلم أو موجدا لفعل العبد أو غیر متحیز و لا في جھۃ ونحوھا ککونہ مرئیا أو لا،لم یبحث النبي عليه الصلوٰة والسلام عن اعتقاد من حکم بإسلامہ فیھا،ولا الصحابۃ ولا التابعون،فعلم أن صحۃ دین الإسلام لا تتوقف علی معرفۃ الحق في تلک المسائل،وأن الخطأ فیھا لیس قادحا في حقیقۃ الإسلام،إذ لو توقفت علیھا،وکان الخطأ قادحا في تلک الحقیقۃ،لوجب أن یبحث عن کیفیۃ
[1] شرح المواقف للجرجاني (۸/۳۷۰)