کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 361
[عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں،ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا:لوگ اس معاملے (طلاق) میں جس میں انھیں مہلت حاصل تھی،جلدی کرنے لگے ہیں۔اگر ہم (ان کی تین طلاقوں کو،تین طلاقیں ہی) ان پر نافذ کر دیں (تو بہتر ہے) چناں چہ انھوں نے اس کو نافذ کر دیا] کتبہ:محمد عبد اﷲ۔مہر مدرسہ۔ ہذا الجواب صحیح ثابت عندي۔کتبہ:أبو العلیٰ محمد عبد الرحمن المبارکفوري۔[1] شیعہ مرد و عورت سے نکاح کرنے اور وراثت کا حکم: سوال:عورت سنت و جماعت کا نکاح مرد شیعہ مذہب کے ساتھ اور مرد سنت و جماعت کا نکاح عورت شیعہ کے ساتھ ازروئے شرع شریف و قرآن و حدیث جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو ان میں توریث جاری ہوگی یا نہیں ؟ جواب:نکاح بھی جائز ہے اور توریث بھی جاری ہوگی،اس لیے کہ ان میں جو اختلاف ہے،وہ کتاب و سنت کی تاویل کا اختلاف ہے اور یہ اختلاف موجب اختلافِ ملت نہیں ہے۔ہاں نکاح مذکور خلافِ اولیٰ ہے،لیکن جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا منکر ہو،اس سے بوجہ اختلافِ ملت نہ مناکحت جائز ہے نہ توریث جاری ہو گی۔ در مختار کی فصل ’’محرمات‘‘ میں ہے: ’’تجوز مناکحۃ المعتزلۃ لأنا لا نکفر أحدا من أھل القبلۃ وإن وقع إلزاما في المباحث‘‘[2] [معتزلہ سے نکاح جائز ہے،کیوں کہ ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے،اگرچہ مباحث میں الزام واقع ہے] ’’فرائض شریفی‘‘ (ص:۱۸ مطبوعہ مصطفائی) میں ہے: ’’بخلاف أھل الأھواء فإنھم معترفون بالأنبیاء والکتب،ویختلفون في تأویل الکتاب والسنۃ،وذلک لا یوجب اختلاف الملۃ‘‘ انتھیٰ [اہلِ اہوا کے برخلاف،کیوں کہ وہ انبیا اور کتابوں کے معترف ہیں اور کتاب و سنت کی تاویل میں اختلاف کرتے ہیں،مگر یہ چیز اختلافِ ملت کو واجب نہیں کرتی] ’’شرح مواقف‘‘ (ص:۷۲۶ مطبوعہ نولکشور) میں ہے:
[1] مجموعہ فتاویٰ غازی پوری (ص:۵۲۲) [2] الدر المختار مع رد المحتار (۳/ ۴۶) اس عبارت کی توضیح کرنے کے بعد علامہ ابن عابدین لکھتے ہیں کہ’’ اگر کوئی رافضی (شیعہ) علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت یا جبریل کے وحی میں غلطی کرنے یا ابوبکر صدیق کی محبت کے انکار یا سیدہ عائشہ صدیقہ پر بہتان طرازی کا نظریہ رکھتا ہے تو وہ کافر ہے،کیوں کہ وہ قطعی دلائل کے ساتھ معلوم ہونے والے دین کے یقینی امور کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘ لہٰذا آج کل کے شیعہ رافضہ کے ساتھ مناکحت کا تعلق رکھنا درست نہیں،کیوں کہ وہ ان تمام منکرات پر علم پیرا ہوتے ہیں۔