کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 360
جواب:نہیں،کیوں کہ ہندہ کی نتنی زید کی رضاعی بھانجی ہے اور نسبی بھانجی حرام ہے: {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَ بَنٰتُکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ وَ عَمّٰتُکُمْ وَ خٰلٰتُکُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ} [سورۂ نساء،رکوع:۴ پارہ چہارم] [حرام کی گئیں تم پر تمھاری مائیں اور تمھاری بیٹیاں اور تمھاری بہنیں اور تمھاری پھوپھیاں اور تمھاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں ] جو لوگ نسب سے حرام ہیں،رضاعت سے بھی حرام ہیں۔صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( إن اللّٰه حرم من الرضاعۃ ما حرم من النسب )) [1] (مشکاۃ شریف،ص:۲۶۵ مطبوعہ انصاري) [بلاشبہہ اﷲ تعالیٰ نے رضاعت سے وہ سب رشتے حرام کیے ہیں جو نسب سے حرام کیے ہیں ] کتبہ:محمد عبد الرحمن،عفي عنہ۔الجواب صحیح۔کتبہ:محمد عبد اللّٰه۔[2] سوال:ایک شخص مسمی عبدالغنی جس کی صرف ایک زوجہ مسماۃ زہرہ ہے،اپنی زوجہ سے ناخوش ہوا،مگر اس کے سامنے کچھ نہیں کہا،وہ باہر گیا،دو آدمی کو بلا کر ان سے یہ کہا کہ ’’ہم نے اس کو طلاق دیا،طلاق دیا،طلاق دیا،اس کو بیٹی سمجھتے ہیں۔‘‘ فقط اس صورت میں طلاق ہوا یا نہیں ؟ اگر طلاق ہوا تو کیا طلاق ہوا؟ ایک طلاق ہوا یا تین طلاق ہوا زوجہ عبدالغنی بلا حلالہ کے،یعنی بغیر دوسرے سے نکاح کے عبد الغنی کے پاس رہ سکتی ہے یا نہیں ؟ بلا حلالہ کے عبدالغنی کے پاس رہ سکے تو تجدیدِ نکاح کی عبدالغنی کے ساتھ حاجت ہوگی یا نہیں ؟ اور کفارہ ظہار بھی دینا ہو گا یا نہیں ؟ واضح رہے کہ عبدالغنی کا لفظ ’’ہم اسے بیٹی سمجھتے ہیں ‘‘ تک ہے۔عبدالغنی نے ان دونوں آدمی سے یہ کلام پہنچانے کو زوجہ تک نہیں کہا تھا اور نہ لفظ زوجہ کا کہا تھا اور نہ نام زوجہ کہا تھا،وقت کلام کے صرف وہی لفظ بولا تھا،جو اوپر مذکور ہوا۔ جواب:اس صورت میں ایک طلاق واقع ہوئی اور حلالہ کی حاجت نہیں ہے اور نہ کفارہ لازم ہے۔اگر عدت نہ گزری ہو تو عبدالغنی رجعت کر سکتے ہیں،یعنی طلاق مذکور واپس لے سکتے ہیں اور صرف اس قدر کہنے سے کہ ہم نے جو اپنی زوجہ مسماۃ فلانہ کو طلاق دیا تھا،اس طلاق کو واپس لیا،رجعت ہوجائے گی اور اگر عدت گزر گئی ہو اور دونوں باہم راضی ہوں تو تجدیدِ نکاح کی ضرورت ہے۔صحیح مسلم (۱/ ۴۷۷ چھاپہ دہلی) میں ہے: ’’عن ابن عباس قال:کان الطلاق علی عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وأبي بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ:فقال عمر بن الخطاب:إن الناس قد استعجلوا في أمر کانت لھم فیہ أناۃ فلو أمضیناہ علیھم،فأمضاہ علیھم‘‘[3] انتھیٰ واللّٰه أعلم بالصواب
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۴۴۶) [2] مجموعہ فتاویٰ غازی پوری (ص:۴۹۸) [3] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۴۷۲)