کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 36
فاروق چڑیا کوٹی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۳۲۷ھ) جیسے اساطینِ علم و فن اس مدرسے میں تدریس فرما رہے تھے۔مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ تحصیلِ علم کے لیے اس مدرسے میں تشریف لے گئے۔یاد رہے کہ مولانا مبارک پوری کے والدِ محترم حافظ عبد الرحیم مبارک پوری رحمہ اللہ بھی اسی مدرسے کے فیض یافتہ تھے۔مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے ان دونوں علماے کرام سے معقولات و منقولات کا درس لیا۔
مولانا حبیب الرحمن قاسمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’مولانا عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ مدرسہ چشمۂ رحمت تشریف لے گئے،جو ان دنوں مشرقی یوپی کا مشہور علمی و دینی ادارہ تھا اور اس میں وقت کے مشاہیر اساتذہ درس دیتے تھے۔بالخصوص مولانا حافظ عبد اللہ مئوی (غازی پوری رحمہ اللہ)کے علومِ دینیہ اور مولانامحمد فاروق چڑیا کوٹی رحمہ اللہ کے علومِ عقلیہ و ادبیہ کا چشمۂ فیض پوری توانائیوں کے ساتھ جاری تھا۔مولانامبارک پوری رحمہ اللہ نے ان دونوں حضرات سے متوسطات اور منتہی کتابیں پڑھیں اور یہیں صرف،نحو،ادب،عربیت،معانی،بیان،منطق،فلسفہ،ریاضی،ہیئت،فقہ،اصول،حدیث اور تفسیر وغیرہ مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کی۔اس مدرسے میں آپ پانچ سال تک زیرِ تعلیم رہے۔‘‘[1]
مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی خدمت میں:
مدرسہ چشمہ رحمت میں پانچ سال گزارنے کے بعد مولانا عبد الرحمن اپنے استاد حضرت مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ کی تحریک پر حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حدیث کی تکمیل کی۔صاحبِ ’’ نزہۃ الخواطر‘‘ لکھتے ہیں:
’’ثم سافر إلی دہلي و أخذ الحدیث عن الشیخ السید نذیر حسین المحدث الدہلوي رحمۃ اللّٰه علیہ ‘‘
’’پھر سفر کر کے دہلی تشریف لے گئے اور شیخ سیدمحمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے علمِ حدیث حاصل کیا۔‘‘[2]
مولانا حبیب الرحمن قاسمی صاحب لکھتے ہیں:
’’مدرسہ چشمہ رحمت غازی پور میں پانچ سال رہ کر مولانا عبد اللہ غازی پوری رحمہ اللہ کی تحریک پر مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے مشکات،جلالین،بلوغ المرام،اوائل ہدایہ،تفسیر بیضاوی،نخبۃ الفکر،صحیح بخاری،صحیح مسلم،جامع ترمذی،سنن ابی داوٗد،سنن نسائی کے اواخر اور سنن ابن ماجہ کے اوائل پڑھے۔نیزقرآن کریم کے چھے پاروں کا ترجمہ سنا اور سند حاصل کی۔‘‘[3]
[1] تذکرہ علماے اعظم گڑھ،(ص:۱۴۳)
[2] نزہۃ الخواطر (۸/ ۲۴۲)
[3] تذکرہ علماے اعظم گڑھ،(ص:۱۴۳)