کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 359
’’وروی المدنیون عن مالک:إن کانت حاضت حیضۃ أو حیضتین من الأول أنھا تتم بقیۃ عدتھا منہ،ثم تستأنف عدۃ أخریٰ،وھو قول الشافعي وأحمد‘‘[1] اھ [مدینہ والوں نے امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے،اگر اسے پہلے خاوند کی عدت سے ایک یا دو حیض آچکے تو پہلے وہ اول شوہر کی باقی ماندہ عدت پوری کرے،بعد میں دوسرے خاوند کی عدت گزارے۔یہ امام شافعی اور احمد رحمہم اللہ کا قول ہے] ہدایہ اولین (ص:۴۰۵ چھاپہ مصطفائی) میں ہے: ’’وإذا وطیت المعتدۃ بشبھۃ فعلیھا عدۃ أخری،وتداخلت العدتان،ویکون ما تراہ المرأۃ من الحیض محتسبا منھما،وإذا انقضت العدۃ الأولیٰ،ولم تکمل الثانیۃ،فعلیھا إتمام العدۃ الثانیۃ،وھذا عندنا۔وقال الشافعي:لا تتداخلان‘‘ اھ [جب عدت گزارنے والی عورت شبہے کے ساتھ وطی کرے تو اس کے ذمے ایک اور عدت گزارنا واجب ہوگا اور وہ دو متداخل عدتیں گزارے گی۔اسے جو حیض آئے گا،وہ دونوں عدتوں میں شمار ہوگا۔جب پہلی عدت پوری ہوجائے اور دوسری عدت پوری نہ ہوئی ہو تو اس پر باقی ماندہ دوسری عدت پوری کرنا بھی واجب ہے۔یہ ہمارا موقف ہے۔جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ متداخل عدتیں نہیں گزارے گی] واضح رہے کہ یہ جو اوپر لکھا گیا ہے کہ دوسری عدت کے ختم ہوجانے پر اگر ہندہ نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہو گا،یہ اس تقدیر پر ہے کہ تجدیدِ نکاح کے بعد عبداﷲ نے ہندہ سے پھر صحبت نہ کی ہو،ورنہ ہندہ پر قولِ احوط کے مطابق ایک اور عدت واجب ہے اور جب یہ تیسری عدت بھی پوری ہوجائے،تب اگر نکاح کرے تو وہ نکاح صحیح ہو گا۔واﷲ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد اللّٰه۔الجواب صحیح۔کتبہ:أبو العلی محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفي عنہ۔صح الجواب۔أبو الفیاض محمد عبد القادر،الجواب صحیح۔عبد الغفار۔الجواب صحیح،و المجیب نجیح۔واللّٰه أعلم بالصواب۔حررہ راجي رحمۃ اللّٰه أبو الھدیٰ محمد سلامت اللّٰه المبارکفوري،عفا عنہ الباري۔الجواب صحیح،واللّٰه أعلم بالصواب۔أبو محمد إبراہیم۔(۱۷/ محرم ۱۳۱۳ھ) [2] رضاعی بھانجی سے نکاح کا حکم: سوال زید نے اپنی دادی ہندہ کا دودھ پیا ہے،پس زید کا نکاح ہندہ کی نتنی [نواسی] سے ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
[1] إرشاد الساري (۸/۱۸۲) [2] مجموعہ فتاویٰ غازی پوری (ص:۴۰۳)