کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 358
تھی۔رشید نے اسے طلاق بتہ دے دی تو طلیحہ نے اپنی عدت کے دوران میں نکاح کر لیا،اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اور اس کے خاوند کو درے مارے اور ان کے درمیان جدائی کروا دی۔پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:جو عورت اپنی عدت میں نکاح کر لے تو اگر اس کے اس خاوند نے اس سے دخول نہیں کیا تو ان کے درمیان جدائی کروا دی جائے گی،پھر وہ اپنے پہلے خاوند کی بقیہ عدت گزارے گی اور یہ (دوسرا خاوند) دوسرے پیغامِ نکاح دینے والوں کے ساتھ پیغامِ نکاح دے سکتا ہے اور اگر اس نے دخول کر لیا ہے تو بھی ان کے درمیان جدائی کروائی جائے گی۔پھر وہ پہلے خاوند کی بقیہ عدت گزارے گی،پھر دوسرے خاوند کی عدت گزارے گی اور پھر یہ (دوسرا خاوند) کبھی اس سے نکاح نہیں کرے گا۔ابن المسیب نے کہا:دوسرا خاوند اسے مہر دے گا،کیوں کہ اس نے عورت کی عصمت کو اپنے اوپر حلال کیا۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا:سفیان ثوری رحمہ اللہ نے اشعث سے روایت کیا ہے،انھوں نے شعبی سے،انھوں نے مسروق سے،انھوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انھوں نے اس موقف سے رجوع کر لیا۔چناں چہ انھوں نے کہا کہ اسے مہر ملے گا اور پھر اگر وہ چاہیں تو دوبارہ (نکاح کے ذریعے) اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ رہا علی رضی اللہ عنہ کا قول تو اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے زاذان کے واسطے سے ان سے روایت کیا ہے۔علی رضی اللہ عنہ نے اس عورت کے بارے میں یہ فیصلہ کیا،جس نے اپنی عدت میں نکاح کر لیا کہ ان دونوں میں جدائی کروائی جائے،اس عورت کو (دوسرے خاوند سے) مہر ملے گا،کیوں کہ اس نے اس کی عصمت کو اپنے لیے حلال کیا،پھر وہ پہلے خاوند کی باقی ماندہ عدت پوری کرے،پھر دوسرے خاوند کی عدت گزارے۔امام دارقطنی اور بیہقی نے ابنِ جریج سے حدیث روایت کی ہے،انھوں نے عطا سے اور عطا نے علی رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے] صحیح بخاری (۳/ ۲۳۴ چھاپہ مصر) میں ہے: ’’وقال إبراھیم فیمن تزوج في العدۃ فحاضت عندہ ثلاث حیض:بانت من الأول،ولا یحتسب بہ لمن بعدہ،وقال الزھري:تحتسب۔وھذا أحب إلی سفیان یعني قول الزھري‘‘ اھ [ابراہیم رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا جس نے عدت ہی میں نکاح کر لیا پھر اسے تین حیض آئے کہ وہ پہلے سے جدا ہو گئی اور پھر وہ دوسرے نکاح کی عدت کا شمار اس میں نہیں ہوگا،لیکن زہری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس میں دوسرے نکاح کی عدت کا شمار ہوگا،یہی،یعنی زہری کا قول،سفیان کو زیادہ پسند ہے] قسطلانی شرح صحیح بخاری میں ہے: