کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 353
دی جائے گی۔ایسی عورت کی عدت میں بھی اختلاف ہے۔جمہور کے نزدیک تین حیض ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صرف ایک حیض ہے۔صحیح بخاری میں ہے: ’’باب إذا أسلمت المشرکۃ والنصرانیۃ تحت الذمي أو الحربي،وقال عبد الوارث عن خالد عن عکرمۃ عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما:إذا أسلمت النصرانیۃ قبل زوجھا بساعۃ حرمت علیہ،وقال داود عن إبراھیم الصائغ:سئل عطاء عن المرأۃ من أھل العھد أسلمت ثم أسلم زوجھا في العدۃ ھي امرأتہ؟ قال:لا إلا أن تشاء ھي بنکاح جدید وصداق،وقال مجاھد:إذا أسلم في العدۃ یتزوجھا،وقال اللّٰه تعالیٰ:لاھن حل لھم ولا ھم یحلون لھن‘‘[1] انتھیٰ [ذمی یا حربی کی مشرکہ یا نصرانیہ عورت اگر اپنے مرد سے ایک ساعت بھی پہلے مسلمان ہوجائے گی تو وہ اس پر حرام ہوجائے گی۔عطا سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی معاہد عورت مسلمان ہوجائے اور اس کی عدت کے دوران میں اس کا خاوند بھی مسلمان ہو جائے تو کیا یہ عورت اسی کی ہے؟ عطا نے کہا:نہیں،ہاں اگر عورت چاہے تو اس سے از سرِنو نکاح کر سکتی ہے اور حق مہر بھی دوبارہ دینا ہو گا۔مجاہد نے کہا:وہ مرد اس سے دوبارہ نکاح کر سکتا ہے] فتح الباری (۲۲/ ۱۹۴) میں ہے: ’’قولہ:سئل عطاء الخ وھو ظاھر في أن الفرقۃ تقع بإسلام أحد الزوجین،ولا تنتظر انقضاء العدۃ۔قولہ:وقال اللّٰه الخ ھذا ظاھر في اختیارہ القول الماضي،فإنہ کلام البخاري،وھو استدلال منہ لتقویۃ قول عطاء المذکور في ھذا الباب،وھو معارض في الظاھر لروایتہ عن ابن عباس في الباب الذي قبلہ،وھي قولہ:لم تخطب حتی تحیض وتطھر،ویمکن الجمع بینھما لأنہ کما یحتمل أن یرید بقولہ:لم تخطب حتی تحیض وتطھر۔انتظار إسلام زوجھا ما دامت في عدتھا،یحتمل أیضاً أن تأخیر الحطبۃ إنما ھو لکون المعتدۃ لا تخطب ما دامت في العدۃ،فعلی ھذا الثاني لا یبقی بین الخبرین تعارض،و بظاھر قول ابن عباس في ھذا وعطاء قال طاؤس والثوري وفقھاء الکوفۃ،ووافقھم أبو ثور،واختارہ ابن المنذر،وإلیہ جنح البخاري،وشرط أھل الکوفۃ ومن وافقھم أن یعرض علیٰ زوجھا الإسلام في تلک المدۃ فیمتنع إن کانا
[1] صحیح البخاري،مع فتح الباري (۹/ ۴۲۰)