کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 35
اعلیٰ تعلیم کے لیے سفر:
مولانا مبارک پوری جب اپنے گھر میں تعلیم سے فارغ ہوئے تو انھوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے شہروں کا سفر کیا۔
ڈاکٹر عین الحق قاسمی صا حب لکھتے ہیں:
’’جب مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ گھریلو تعلیم اور قرب و جوار کے علما سے بہرہ ور ہو چکے تو آپ کے اندر علم کا شوق مزید بڑھ گیا اور اسی شوقِ طلب نے آپ کو وطنِ مالوف چھوڑنے پر مجبور کیا اور وقت کے متبحر علما اور بڑی درسگاہوں کی طرف شدِ رحال پر ابھارا۔اسی زمانے میں مبارک پور کے مشرق و مغرب میں علماے فرنگی محل کی دو مشہور درس گاہیں تھیں۔ایک مدرسہ حنفیہ جون پور،جس کو وہاں کے ایک رئیس منشی امام بخش نے مولانا سخاوت علی جون پوری کی تحریک پر غالباً ۱۲۶۷ھ میں قائم کیا تھا۔اس کے صدر مدرس مولانا عبد الحلیم صاحب فرنگی محلی تھے۔پھر ۱۲۷۷ھ میں مولانا مفتی محمد یوسف صاحب فرنگی محلی نے ان کی جگہ پائی۔اسی مدرسے کے آخری نامور مدرس مولانا ہدایت اللہ صاحب رام پوری شاگرد مولانا فضل حق خیر آبادی تھے۔۱۸۷۹ء میں مدرس ہوئے۔‘‘[1]
اساتذہ کرام:
مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس مرحلے میں جن اساتذہ کرام سے علومِ اسلامیہ کی تحصیل کی،ان کے نام یہ ہیں:
مولانا خدا بخش مہران گنجی (المتوفی ۱۳۳۲ھ)،مولانافیض اللہ مئوی رحمہ اللہ (المتوفی ۱۳۱۶ھ)،مولانا سلامت اللہ جیراج پوری رحمہ اللہ (المتوفی ۱۳۲۲ھ) اور مولانا حسام الدین مئوی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۳۱۰ھ)۔
ان اساتذہ کرام سے مولانا مبارک پوری نے متوسطات تک کی تعلیم حاصل کی اور فقہ و اصولِ فقہ کی بھی چند کتابیں پڑھیں۔
مدرسہ چشمۂ رحمت:
مدرسہ چشمۂ رحمت،مولانا رحمت اللہ فرنگی محلی نے ۱۸۶۹ء میں قائم کیا تھا۔اس مدرسے نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنے گرد و نواح میں خاصی شہرت حاصل کر لی تھی اور اتر پردیش (یو،پی)،صوبہ بہار اور دوسرے صوبوں سے شائقینِ علم آ کر تحصیلِ علم کرنے لگے تھے۔مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ (المتوفی ۱۳۳۷ھ) اور مولانا محمد
[1] مولانا عبد الرحمن محدث مبارکپوری،حیات و خدمات،(ص:۴۴،۴۵)