کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 347
غیرھم،فدعا بھم رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فجزأھم أثلاثا،ثم أقرع بینھم،فأعتق اثنین وأرق أربعۃ،وقال لہ قولا شدیداً‘‘[1] [ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھے غلاموں کو آزاد کر دیا اور ان کے علاوہ اس کے پاس کوئی مال نہ تھا تو ان غلاموں کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور ان کے تین حصے کر دیے،پھر ان میں قرعہ ڈالا،دو کو آزاد کر دیا اور چار کو پھر غلام بنا لیا اور مرنے والے کے حق میں کوئی سخت بات بھی کہی] قال في سبل السلام تحت ھذا الحدیث:’’دل الحدیث علیٰ أن حکم التبرع في المرض حکم الوصیۃ،ینفذ من الثلث،وإلیہ ذھب مالک والشافعي وأحمد‘‘[2] انتھیٰ [یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ بیماری میں صدقے کا حکم وصیت کا ہے،جو تیسرے حصے میں نافذ ہو گا۔امام مالک،شافعی،احمد کا یہی مذہب ہے] نیز بلوغ المرام میں ہے: ’’عن أبي أمامۃ الباھلي رضی اللّٰه عنہ قال:سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم یقول:إن اللّٰه قد أعطیٰ کل ذي حق حقہ فلا وصیۃ لوارث۔رواہ أحمد والأربعۃ إلا النسائي،وحسنہ أحمد والترمذي،وقواہ ابن خزیمۃ وابن الجارود۔[3] رواہ الدارقطني من حدیث ابن عباس وزاد في آخرہ:إلا أن یشاء الورثۃ۔وإسنادہ حسن‘‘[4] [رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔پس وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں ہے۔احمد،ابو داود،ابن ماجہ،ترمذی۔دارقطنی کی روایت میں یہ اضافہ ہے:مگر یہ کہ وارث اجازت دے دیں ] قال في سبل السلام (۲/ ۵۸):’’والحدیث دلیل علیٰ منع الوصیۃ للوارث،وھو قول الجماھیر من العلماء‘‘ انتھیٰ،واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔ [اس حدیث میں دلیل ہے کہ وارث کے لیے وصیت منع ہے،جمہور علما کا یہی قول ہے] حررہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[5] سید محمد نذیر حسین
[1] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۶۶۸) [2] سبل السلام (۴/ ۱۴۳) [3] مسند أحمد،رقم الحدیث (۶۷۵) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۳۵۶۵) سنن الترمذي،رقم الحدیثث (۲۱۲۰) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۷۱۳) منتقیٰ ابن الجارود (۹۴۹) [4] سنن الدارقطني (۴/ ۹۸) اس کی سند ضعیف ہے اور یہ زیادتی منکر ہے،بلکہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے معلول قرار دیا ہے۔دیکھیں:التلخیص الحبیر (۳/ ۹۲) [5] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۵۸۸)