کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 342
بلوغ المرام میں ہے: ’’عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما:أن جاریۃ أتت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فذکرت أن أباھا زوجھا،وھي کارھۃ،فخیرھا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘[1] [عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بتایا کہ اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا ہے،جب کہ وہ (اس نکاح سے) خوش نہیں ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (نکاح قائم رکھنے یا نہ رکھنے کا) اختیار دے دیا] سبل السلام میں ہے: ’’وأجیب عنہ بأنہ رواہ أیوب بن سوید عن الثوري موصولا،وکذلک رواہ معمر بن سلیمان الرقي عن زید بن حبان عن أیوب موصولا،وإذا اختلف في وصل الحدیث وإرسالہ فالحکم لمن وصلہ۔قال المصنف:الطعن في الحدیث لا معنی لہ،لأن لہ طرقا یقوي بعضھا بعضا‘‘[2] انتھیٰ [اس کا جواب یوں دیا گیا ہے کہ اسے ایوب بن سوید نے ثوری سے موصولاً روایت کیا ہے۔اسی طرح معمر بن سلیمان الرقی نے زید بن حبان سے اور انھوں نے ایوب سے موصولاً روایت کیا ہے۔جب حدیث کے موصول اور مرسل ہونے میں اختلاف ہو جائے تو اس کو موصول بیان کرنے والے کی بات معتبر ہو گی۔مصنف نے کہا ہے:حدیث میں طعن کرنے کا کوئی معنی نہیں ہے،کیوں کہ اس کے کئی طرق ہیں،جو ایک دوسرے کو قوی کر دیتے ہیں ] پس صورتِ مسئولہ میں ہندہ نے بالغ ہونے کے وقت اس نکاح سے ناراضی اور ناخوشی ظاہر کی ہے اور نکاح کا فسخ چاہا ہے تو اس کو فسخِ نکاح کا اختیار ہے اور اگر بالغ ہونے کے وقت اس نے ناراضی ظاہر نہیں کی،بلکہ خاموش و ساکت رہی،پھر بعد کو فسخِ نکاح کرنا چاہا تو اس صورت میں اس کو فسخِ نکاح کا اختیار نہیں ہے۔نابالغی کی حالت میں رخصتی ہونے اور شوہر کے مکان میں خلوت کے ساتھ رہنے کا کچھ اعتبار نہیں۔ھذا ما عندي،واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔ نابالغی کے نکاح میں بلوغت کے بعد لڑکی کو اختیار حاصل ہوتا ہے: سوال:کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلے میں کہ زید نے اپنی نابالغہ لڑکی کا نکاح عمر کے ساتھ پڑھا دیا۔اب
[1] مسند أحمد (۲۴۶۹) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۰۹۶) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۱۸۷۵) [2] سبل السلام (۳/ ۱۲۲)