کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 339
[آزاد مکلف عورت اگر بغیر ولی کے نکاح کرے تو وہ نکاح نافذ ہوگا اور بالغہ کنواری کو نکاح پر مجبور نہیں کیا جا سکتا] ’’ولا تجبر البکر البالغۃ علیٰ النکاح لانقطاع ولایتہ بالبلوغۃ‘‘ (در مختار،ص:۱۶۳) [کنواری بالغہ کو نکاح پر مجبور نہیں کیا جا سکتا،کیوں کہ بالغہ ہونے کی وجہ سے ولی کی ولایت ختم ہوچکی ہے] حدیث (( لا نکاح إلا بولي )) مجنونہ اور صغیرہ کے حق میں ہے،چنانچہ شیخ عبدالحق صاحب نے اور صاحبِ شامی وغیرہما نے تحقیق فرمائی ہے،جو چاہے وہ بچشمِ خود دیکھ لے۔واﷲ أعلم علمہ أتم۔ الراقم العاجز:محمد علاؤ الدین عفی عنہ از گوجرانوالہ (۱۳۱۷ھ جمادیٰ الثانی) هو الموافق پہلے سوال کا جواب صحیح نہیں ہے،اس واسطے کہ عورت بالغہ ہو یا نابالغہ،خود مختار نہیں ہے کہ اسے ولی کی حاجت نہ ہو اور بلا ولی کے اس کا نکاح درست ہو،بلکہ کسی عورت کا نکاح ہرگز ہرگز بلاولی کے جائز نہیں ہے۔ ’’قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( لا نکاح إلا بولي )) رواہ أحمد والأربعۃ،وصححہ ابن المدیني والترمذي وابن حبان،وأعل بالإرسال،کذا في بلوغ المرام۔وقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل۔الحدیث۔أخرجہ الأربعۃ إلا النسائي،وصححہ أبو عوانۃ وابن حبان والحاکم‘‘ کذا في البلوغ[1] [رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو بھی عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے،اس کا نکاح باطل ہے] حدیث (( الأیم أحق بنفسھا من ولیھا )) سے عورت کی خود مختاری اور ولی سے غیر محتاج ہونا ثابت نہیں ہوتا،بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اَیم کو ولی کی حاجت ضروری ہے،مگر اس کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر ولی نہیں کرسکتا۔ قال في سبل السلام:’’ومن الأدلۃ علیٰ اعتبار الولي قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم:الثیب أحق بنفسھا من ولیھا۔فإنہ أثبت حقا للولي،کما یفیدہ لفظ:أحق،و أحقیتہ ھي الولایۃ و أحقیتھا رضاھا،فإنہ لا یصح عقدہ بھا إلا بعدہ،فحقھا بنفسھا آکد من حقہ لتوقف حقہ علی إذنھا۔انتھیٰ[2] وقال في النیل:’’وأجیب بأن المراد اعتبار الرضا منھا جمعاً بین الأحادیث‘‘[3] انتھیٰ [ولی کے اعتبار کے دلائل میں سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول بھی ہے کہ ثیبہ اپنے ولی کی نسبت اپنے نفس کی زیادہ حق دار ہے۔آپ نے اس میں ولی کا حق بھی رکھا،جیسا کہ ’’زیادہ حق دار‘‘ کا لفظ اس پر دلالت کر رہا ہے۔اس کی احقیت تو ولایت ہے اور عورت کی احقیت اس کی رضا مندی ہے،کیوں کہ عورت کا
[1] بلوغ المرام (۹۸۸۔۹۸۹) [2] سبل السلام (۳/ ۱۲۱) [3] نیل الأوطار (۶/ ۱۸۳)