کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 336
’’ولا یجوز للأب أن یعوض عما وھب للصغیر من مالہ‘‘[1] کذا في الدر المختار۔ [باپ اپنے چھوٹے بچے کا مال عاریتاً نہیں دے سکتا،کیوں کہ بچے کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور نہ باپ نے جو اپنے چھوٹے بچے کو بطور ہبہ دیا ہوتا ہے اس کے مال کا عوض ہی لے سکتا ہے] جب مال کے لیے ایسی حالت ہے تو نکاح تو اولیٰ ہے اور جب ولایت میں ضرر متصور ہو تو باپ بھی ولی نہیں رہ سکتا۔ ’’الأب ولي أشفق ما لم یکن مفسداً أو خائنا أو متھتکا۔کذا في الفتاویٰ الغیاثیۃ [باپ سب سے زیادہ مشفق ولی ہے،بشرطیکہ وہ مفسد،خائن یا عزت دری کرنے والا نہ ہو] اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ولایت میں لحاظ قربِ قرابت کا ضرور رکھا گیا ہے اور وہ قریب ولی بنایا گیا ہے،کیونکہ اقرب میں باعتبار بعد کے شفقت کا خیال زیادہ ہے۔ ’’والترتیب في العصبات في ولایۃ النکاح کالترتیب في الإرث،الأبعد محجوب بالأقرب‘‘[2] کذا في الھدایۃ (ص:۲۰۵) [ولایتِ نکاح میں عصبات کی ترتیب وراثت کی ترتیب کی طرح ہے۔دور کا ولی قریب کے ولی کے سبب سے محجوب ہوجائے گا] پس جب کہ چچا کبھی اس نابالغہ کا خبر گیر نہ ہو اور نہ شفقت اس کے حق میں کی تو وہ بمقابلہ ماں کے ولی نہیں ہوسکتا،کیونکہ اس کی شفقت قاصر ہے،اسی وجہ سے بھائی وغیرہ کی شفقت لازمی نہیں: ’’ولھما أن قرابۃ الأخ ناقصۃ،والنقصان یشعر بقصور الشفقۃ فیتطرق الخلل إلیٰ المقاصد‘‘[3] کذا في الھدایۃ (ص:۲۰۵) [بھائی کی قرابت ناقص ہے اور نقصانِ قرابت نقصانِ شفقت سے معلوم ہوتا ہے۔اس طرح مقاصد میں خلل پڑے گا] صورتِ مسئولہ سے صاف ظاہر ہے کہ چچا کا بے تعلق رہنا صراحتاً عدمِ شفقت پر دال ہے،جس میں نابالغہ کا ضرر متیقن ہے،حالانکہ نفع صغیرین ولایت سے مقصود ہے،نہ کہ ضرر صغیرین،پس کیونکر وہ ولی رہ سکتا ہے؟ علاوہ ازیں وہ فاسق بھی ہے۔عالمگیری میں ہے کہ اگر باپ دادا فاسق ہوں تو ان کی ولایت ساقط ہوجاتی ہے اور قاضی کو ولایتِ نکاح حاصل ہوتی ہے: ’’غاب الولي أو ھو طفل أو کان الأب أو الجد فاسقا فللقاضي أن یزوجھا من کفو‘‘[4]
[1] مصدر سابق [2] الھدایۃ (۱/ ۱۹۸) [3] الھدایۃ (۱/ ۱۹۸) [4] الفتاویٰ الھندیۃ (۱/ ۲۸۵)