کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 332
[ ابو سعید کے واسطے سے مروی ہے،انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے نصف نہیں ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ کیوں نہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہی اس کی عقل کا نقصان ہے] پس آیتِ کریمہ اور حدیثِ صحیح سے ثابت ہوا کہ دو عورتوں کی شہادت ایک شہادت کے قائم مقام ہے۔پس یہ حکم عام جمیع احکامِ شرعیہ میں جاری ہو گا،من غیرتخصیص فی فرد دون فرد،اور اس عام کی تخصیص کے لیے صریح سنت مرفوع چاہیے۔یہ روایت جو مسند امام شافعی کی ہے: ’’أخبرنا مالک عن ابن الزبیر قال:أتي عمر رضی اللّٰه عنہ بنکاح لم یشھد علیہ إلا رجل وامرأۃ،فقال:ھذا نکاح السر أجیزہ؟‘‘[1] انتھیٰ [ہمیں بتایا مالک نے ابن زبیر کے واسطے سے،انھوں نے کہا:عمر رضی اللہ عنہ کو ایک نکاح کی بابت بتایا گیا جس میں ایک مرد اور ایک عورت گواہ تھے تو انھوں نے کہا کہ یہ مخفی نکاح ہے،اس کی میں کیسے اجازت دوں ؟] پس یہ انکار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اس سبب سے ہوا کہ اس نکاح کا گواہ صرف ایک مرد تھا اور ایک عورت تھی،حالانکہ اگر ایک مرد موجود تھا تو پھر بجائے دوسرے مر د کے دو عورتوں کا ہونا ضروری تھا۔ ہدایہ میں ہے: ’’ولا ینعقد نکاح المسلمین إلا بحضور شاھدین حرین عاقلین بالغین مسلمین،رجلین،أو رجل وامرأتین،ولا یشترط وصف الذکورۃ،حتی ینعقد بحضور رجل وامرأتین،و فیہ خلاف الشافعي‘‘[2] انتھیٰ [مسلمانوں کا نکاح منعقد نہیں ہوتا مگر دو عاقل،بالغ،مسلم،مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت کے ساتھ۔اس میں مرد ہونے کی شرط نہیں ہے،یہاں تک کہ ایک مرد اور دو عورتوں کی حاضری سے بھی نکاح منعقد ہوجائے گا اور اس میں شافعی کا اختلاف ہے] پس حاصل کلام یہ ہے کہ اگر اس عورت کا باپ بلا و جہ شرعی باعث فسق اپنے اس عورت کو نکاح سے روکتا ہے او ر مانع از نکاح ہے اور وہ عورت نکاح کر نے کی خواہش مند ہے اور دوسرا ولی بعید بھی اس کا نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ بھی مانع از نکاح ہے،تو اس صور ت میں مذہب ائمہ کرام کے مطابق وہ عورت اپنے نکاح کا ولی بنا کر نکاح کرے،وہ نکاح صحیح ہو گا۔بنا بر مذہب صحیح اور دلیل قوی کے دو عورت اور ایک مرد کی گواہی کافی ہو گی،مگر خروجاً عن الخلاف اگر دو مرد گواہ مقرر کرلے تو بہتر ہے۔واللّٰه أعلم بالصواب،وإلیہ المرجع و المآب۔ وصلی اللّٰه تعالی علی خیر خلقہ محمد وآلہ وأصحابہ أجمعین۔وآخر دعوانا أن
[1] مسند الشافعي (۱/ ۲۹۱) [2] الھدایۃ للمرغیناني (ص:۱۸۵)