کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 329
[اگر ولی ہو ہی نہ یا وہ رکاوٹ ڈالے اور اس کے علاوہ کوئی اور ولی نہ ہو تو اس صورت میں اس علاقے کا سلطان اس کی شادی کرا سکتا ہے،جیسے شہر کا والی یا شہر کا کوئی بڑا شخص یا امیر قافلہ وغیرہ،کیونکہ وہ صاحبِ اقتدار ہے،لیکن اگر اس علاقے میں کوئی صاحبِ اقتدار شخص نہ پایا جاتا ہو تو اس کی شادی اس کی بستی کا کوئی عادل شخص کرا سکتا ہے] ’’شرح منتھی الإرادات‘‘ میں ہے: ’’فإن عدم الکل أي عصبۃ النسب والولاء والسلطان ونائبہ من المحل الذي بہ الحرۃ،زوجھا ذوسلطان في مکانھا،کعضل أولیائھا مع عدم إمام ونائبہ في مکانہ،والعضل الامتناع من تزویجھا۔۔۔،واشتراط الولي في ھذہ الحال یمنع النکاح بالکلیۃ ‘‘[1] انتھیٰ [پس اگر کوئی بھی نہ ہو،یعنی کوئی قریبی نسبی رشتے دار ولی،اس علاقے کا سلطان اور اس کا نائب جہاں کہ وہ آزاد عورت رہتی ہے،تو اس کی شادی اس کے علاقے کا کوئی صاحبِ اقتدار شخص کراسکتا ہے،جیسے کہ اس کے اولیا کا انکار کر دینا،امام کا نہ پایا جانا یا اس کے نائب کا موجود نہ ہونا۔عضل شادی کرانے سے انکار کو کہتے ہیں اور اس حال میں ولی کی شرط نکاح کو بالکلیہ روک دیتی ہے] ’’رحمۃ الأمۃ‘‘ میں ہے: ’’فإن کانت المرأۃ في موضع لیس فیہ حاکم،ولا ولي،فوجھان:أحدھما تزوج نفسھا،والثاني:أنھا ترد أمرھا إلی رجل من المسلمین یزوجھا‘‘ انتھیٰ [پس اگر عورت ایسی جگہ میں ہے جہاں حاکم ہے نہ ولی،تو دو صورتیں ہیں:ایک یہ کہ وہ اپنی شادی خود کرلے اور دوسری یہ کہ اپنا معاملہ مسلمانوں میں سے کسی کے سپرد کر دے جو اس کی شادی کرا دے] اب رہا یہ امر کہ نکاح میں عورت کی شہادت جائز ہے یا نہیں اور ایک یا دو عورتیں اس کے لیے کافی ہیں یا نہیں ؟ پس شافعی اور امام احمد کے نزدیک عورتوں کی شہادت نکاح میں جائز نہیں ہے۔ ’’کشاف القناع في فقہ الحنابلۃ‘‘ میں ہے: ’’الشرط الرابع:الشہادۃ علی النکاح،فلا ینعقد النکاح إلا بشاھدین مسلمین عدلین ذکرین،لما روی أبو عبید في الأموال عن الزھري أنہ قال:مضت السنۃ أن لا یجوز شھادۃ النساء في الحدود،ولا في النکاح،ولا في الطلاق‘‘[2] انتھیٰ
[1] شرح منتھٰی الإرادات (۲/ ۶۳۹) [2] کشاف القناع (۵/ ۶۵)