کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 323
رواہ الإمام أحمد وأصحاب السنن الأربعۃ،وصححہ علي بن المدیني وعبد الرحمن ابن مھدي والترمذي والبیھقي وغیر واحد من الحفاظ،ورواہ أبو یعلی الموصلي في مسندہ عن جابر مرفوعاً،قال الحافظ الضیاء:رجالہ کلھم ثقات،و قال الحاکم:و قد صحت الروایۃ فیہ عن أزواج النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم عائشۃ و أم سلمۃ وزینب بنت جحش قال:و في الباب عن علي وابن عباس،ثم سرد ثلاثین صحابیا،والحدیث دل علی أنہ لا یصح النکاح إلا بولي‘‘ کذا في سبل السلام شرح بلوغ المرام۔[1] [رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے‘‘ اس حدیث کو امام احمد اور اصحابِ سنن سے روایت کیا ہے۔علی بن مدینی،عبدالرحمن بن مہدی،ترمذی،بیہقی اور بہت سے حفاظ نے اسے صحیح کہا ہے۔ابو یعلیٰ موصلی نے اس کو جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔حافظ ضیا نے کہا:اس کے راوی سب ثقہ ہیں۔حاکم نے کہا:ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے اس کو حضرت عائشہ،اُم سلمہ اور زینب بنت جحش رضی اللہ عنہن نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث حضرت علی،ابن عباس اور ان کے علاوہ تیس صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے] مسلکِ سوم داود ظاہری کا ہے کہ عورت ثیبہ کے لیے شرط اذنِ ولی نہیں ہے،بلکہ ثیبہ خود بلا اذنِ ولی کے نکاح کر سکتی ہے اور باکرہ کا نکاح بغیر ولایتِ ولی کے جائز نہیں ہے اور اس کو کچھ اختیار نہیں۔لحدیث ابن عباس رضی اللّٰه عنہما أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:(( الثیب أحق بنفسھا من ولیھا والبکر تستأمر،وإذنھا سکوتھا )) رواہ مسلم،و في لفظ من روایۃ ابن عباس:(( لیس للولي مع الثیب أمر،والیتیمۃ تستأمر )) رواہ أبوداود والنسائي،وصححہ ابن حبان۔[2] [ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی بنیاد پر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شوہر دیدہ (ثیبہ) اپنے ولی کے مقابلے میں بنفسِ نفیس زیادہ حق دار ہے اور دوشیزہ سے اجازت چاہی جائے گی اور اس کی اجازت اس کا سکوت ہو گا۔اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔ابن عباس کی ایک روایت میں ایک لفظ ہے کہ ثیبہ کے معاملے میں ولی کو کوئی اختیار نہیں ہے اور یتیمہ سے اجازت چاہی جائے گی۔اس کی روایت ابو داود اور نسائی نے کی ہے اور ابن حبان نے اس کو صحیح قرار دیا ہے] وقال النووي في شرح مسلم:’’واختلف العلماء في اشتراط الولي في صحۃ النکاح،فقال مالک والشافعي:یشترط،و لا یصح النکاح إلا بولي،في تزویج البکر دون الثیب‘‘[3] [امام نووی نے مسلم کی شرح میں کہا ہے کہ مالک اور شافعی کے نزدیک نکاح کی صحت میں ولی شرط ہے
[1] سبل السلام (۱/ ۱۴۷) [2] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۴۲۱) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۱۰۰) سنن النسائي،رقم الحدیث (۲۶۶۰) صحیح ابن حبان (۹/ ۳۹۴) [3] شرح النووي (۹/ ۲۰۵)