کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 322
کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] سید محمدنذیر حسین بیوہ عورت کا باپ کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا: سوال:کیا فر ماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک عورت بیوہ ہے اور اپنا نکاح کرانا چا ہتی ہے،لیکن عورت مذکورہ کا باپ کچھ تو اس وجہ سے کہ حسبِ رواج جہالت قدیمہ بیوہ کے نکاح کو برا جانتا اور توہین سمجھتا ہے،دوسرے اس وجہ سے کہ وہ خود تو بد دین ہے،توحید و سنت والوں کو وہابی وغیرہ کہتا ہے اور اس امر پر ہر گز راضی نہیں ہے کہ اس کی دختر ایسے آدمی سے نکاح کرے،اور عورت مذکورہ بدعت شرک وغیرہ سے تائب ہوگئی ہے اور نماز کی پابند ہے،اور یوں چاہتی ہے کہ کسی دین دار آدمی سے نکاح ہوجائے،تو اس صورت میں شریعتِ اسلام یہاں اجازت دیتی ہے یا نہیں کہ عورت مذکورہ اپنی قرابت میں کسی اور آدمی کو اپنے نکاح کا ولی بنا کر کسی دین دار شخص سے اپنا نکاح پڑھوا لے،اور باپ کے ڈر سے اعلان عام نہ ہوسکے،اور ایسے جلسے میں نکاح ہو جس میں ایک مر د حاضر ہے جو بیوہ مذکورہ کا داماد بھی اور خالہ کا بیٹا بھی ہے،اور اسی کو عورت نے اپنے نکاح کا ولی بنایا،اور قاضی بھی،اور دو عورتیں حاضر ہیں،تو ایسا نکاح شرعاً صحیح ہے یا نہیں ؟ جواب:{اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ} [یوسف:۴۰] [حکم توصرف اللہ ہی کا ہے] معلوم کر نا چاہیے کہ در صورتِ مذکورہ سوال شریعتِ اسلام اجازت دیتی ہے کہ عورت مذکورہ اپنے قرابت مند سے ایک مر د صالح کو اپنے نکاح کا ولی بنا کر کسی دین دار شخص سے اپنا نکاح پڑھوالے اور ایسا نکاح جو سوال مذکورہ ہے،شرعاً صحیح و سنت ہے۔تفصیل اس مسئلے کی یہ ہے۔ شرط إذن الولي في النکاح [نکاح میں ولی کی اجازت شرط ہے] میں تین مذہب ہیں: اول مذہب احناف کا،مسلک ان کا یہ ہے کہ اذنِ ولی کی صحتِ نکاح کے لیے شرط نہیں ہے،عورت باکرہ ہو یا ثیبہ ہو،بلکہ عورت خود اپنا نکاح بلا اذن ولی کے کرسکتی ہے،مگر یہ مسلک بالکل ضعیف ہے اور ادلہ صحیحہ اس کے خلاف پر قائم ہیں۔ دوسرا مسلک امام شافعی اور امام احمد و اکثر محدثین کا ہے کہ اذنِ ولی صحتِ نکاح کے لیے شرط ہے اور عورت باکرہ ہو یا ثبیہ ہو،عورت کو اختیار نہیں کہ بغیر ولایت کے اپنا نکاح کسی سے کرے۔ قال اﷲ تبارک و تعالی:{وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ} [النور:۳۲] [ تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں،ان کا نکاح کردو ] پس یہاں پر خطاب ہے اولیا کو کہ تم بے خاوند والی عورتوں کا نکاح کر دو۔ ’’وعن أبي بردۃ بن أبي موسی عن أبیہ قال:قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( لا نکاح إلا بولي ))
[1] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۴۱۲)