کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 317
ہو گا اور زینب بکر کی منکوحہ نہیں ٹھہرے گی۔مشکاۃ شریف (ص:۳۱۸) میں ہے: ’’عن ابن عباس عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:لو یعطیٰ الناس بدعواھم لادعیٰ ناس دماء رجال وأموالھم،ولکن الیمین علیٰ المدعی علیہ۔رواہ مسلم۔وفي شرحہ للنووي أنہ قال:وجاء في روایۃ البیھقي بإسناد حسن أو صحیح زیادۃ عن ابن عباس مرفوعاً:لکن البینۃ علیٰ المدعي،والیمن علیٰ من أنکر‘‘[1] [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر لوگوں کو ان کے دعوے کے مطابق دے دیا جائے تو وہ لوگوں کے خون اور مال لے جائیں۔قسم مدعی علیہ پر ہے،دوسری روایت میں ہے کہ دلیل مدعی کے ذمے ہے اور قسم انکار کرنے والے پر ہے] نیز اسی کتاب میں ہے: ’’عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال:البینۃ علیٰ المدعي،والیمن علیٰ المدعیٰ علیہ‘‘[2] (رواہ الترمذي) واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ [عمرو بن شعیب کی حدیث کے بھی یہی الفاظ ہیں کہ دلیل مدعی کے اور قسم مدعا علیہ کے ذمے ہے۔بیہقی نے باسناد حسن اسے روایت کیا ہے] کتبہ:محمد عبد الرحمن المباکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[3] سید محمد نذیر حسین سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ ایک عورت ثیبہ مومنہ غیر کفو ایک مرد دیندار کے گھر میں کاروبار عرصہ تخمیناً تیس سال تک کرتی رہی،پھر ان دونوں کی یہ مرضی ہوئی کہ نکاح کر لیں،پھر دو شخص عاقل،بالغ،عالم پاس بٹھا کر ایجاب و قبول کیا اور مہر دس روپے باندھا،پھر ناکح نے گواہوں کو کہا کہ تم اس بات کو پوشیدہ رکھنا،کیونکہ میری برادری مجھ کو تکلیف دے گی،پھر جب بعد گزرنے چند ماہ کے حمل ظاہر ہوا،برادری نے ناکح و منکوحہ سے پوچھا کہ یہ حمل کیسا ہے؟ انھوں نے کہا:یہ حلال ہے،ہم نے نکاح کیا ہے اور ایجاب و قبول مع مہر ہوا ہے،پھر ان کے ایک لڑکا اور پھر ایک لڑکی پیدا ہوئی۔اب تک عرصہ پندرہ سال سے اس کے گھر میں آباد ہے،برادری ان کو ورثہ دینے سے انکار کرتی ہے کہ یہ اولاد غیر کفو سے ہے اور ان کا نکاح پوشیدہ ہوا ہے تو عرض یہ ہے کہ یہ نکاح دو شاہدوں سے پوشیدہ ہوتا ہے یا نہیں اور اولاد جو غیر کفو سے ہو،اس کو ورثہ ملتا ہے یا نہیں ؟ جواب:نکاحِ مذکور صحیح ہوا اور عورت مذکورہ کا غیر کفو ہونا نکاح کے صحیح ہونے سے مانع نہیں ہے اور اعلان فی نفسہٖ
[1] مشکاۃ المصابیح (۲/ ۳۵۶) نیز دیکھیں:صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۷۱۱) سنن البیھقي (۱۰/ ۲۵۲) شرح صحیح مسلم للنووي (۱۲/ ۳) [2] سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۳۴۱) مشکاۃ المصابیح (۲/ ۳۵۸) [3] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۴۸۱)