کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 308
’’ومن أصحابنا من احتج بحدیث أبي ھریرۃ المتقدم،ولیس فیہ حجۃ،لأنھم یحملونہ علیٰ الجماع،قالوا:وقد جاء مبینا في روایۃ جماعۃ عن الزھري نحو عشرین رجلا،ذکرھم البیھقي،فقالوا فیہ:إن رجلا وقع علیٰ امرأتہ في رمضان۔قال البیھقي:وروایۃ ھؤلاء الجماعۃ عن الزھري مقیدۃ بالوطي أولیٰ بالقبول لزیادۃ حفظھم وأدائھم الحدیث علی وجھہ‘‘[1] [ہمارے اصحاب میں سے بعض نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ بالا حدیث سے حجت پکڑی ہے،جب کہ اس میں کوئی حجت نہیں ہے،کیوں کہ دوسروں نے اس (مذکورہ بالا حدیث) کو جماع پر محمول کیا ہے۔چناں چہ انھوں نے کہا کہ امام زہری رحمہ اللہ سے تقریباً بیس آدمیوں کی جماعت سے یہ روایت وضاحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے،جن کا امام بیہقی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے۔ان تمام نے اس حدیث میں یہ وضاحت کی ہے کہ ایک آدمی نے رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر لیا۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ سے اس جماعت کی روایت کو وطی کے ساتھ مقید کرنا زیادہ لائقِ قبول ہے،کیوں کہ وہ (اصحابِ زہری) زیادہ حافظ اور اس کو صحیح طرح بیان کرنے والے ہیں ] وقال الحافظ ابن حجر في تخریج الھدایۃ:(( وقد ورد في بعض طرقہ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم أمر رجلا أفطر في رمضان أن یعتق رقبۃ۔۔۔الحدیث،وأخرجہ الدارقطني عن أبي ھریرۃ:أمر الذي أفطر یوما من رمضان بکفارۃ الظھار،والحدیث واحد،والقصۃ واحدۃ،والمراد أنہ أفطر بالجماع،لا بغیرہ،توفیقا بین الأخبار‘‘[2] [حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ہدایہ کی تخریج میں اس سلسلے کی مختلف خبروں میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کے بعض طرق میں یہ مروی ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کو گردن آزاد کرنے کا حکم دیا،جس نے رمضان کا روزہ توڑا تھا۔۔۔الحدیث۔اس حدیث کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے،جس میں اس شخص کو ظہار کا کفارہ دینے کا حکم ہے،جس نے رمضان کا روزہ توڑا تھا۔یہ حدیث اور وہ واقعہ ایک ہی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس شخص نے جماع کے ذریعے روزہ توڑا تھا نہ کہ کسی اور طریق سے] انھیں مذکورہ روایتوں سے قصداً کھا پی کر روزہ توڑنے والے پر کفارہ واجب کہا جاتا ہے اور ظاہر ہوا کہ ان روایتوں سے مطلوب نہیں ثابت ہوتا۔ہاں قصداً جماع سے روزہ توڑنے والے پر کفارہ بلاشبہہ واجب ہے،کیونکہ اس بارے میں صحاحِ ستہ و دیگر کتبِ احادیث میں نصِ صریح موجود ہے اور قصداً کھانے پینے سے روزہ توڑنے کو قصداً جماع سے روزہ توڑنے پر قیاس کرنا ہرگز صحیح نہیں،کیونکہ دونوں صورتوں میں بڑا فرق ہے۔پہلی صورت
[1] نصب الرایۃ (۲/۳۲۸) [2] الدرایۃ (۱/۲۷۹)