کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 303
فأنکر کونہ من المرفوع،والأول ھو الذي علیہ الاعتماد،لأن ظاہر ذلک مشعر بأن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم اطلع علیٰ ذلک‘‘ انتھیٰ سائل کے سوال کا خلاصۂ جواب یہ ہے کہ رمضان کا روزہ رکھنا فرض ہے،جیسا کہ اس کی فرضیت پر آیت:{فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ} صاف دلالت کرتی ہے اور آیت:{وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ} منسوخ ہے،اس آیتِ منسوخہ سے روزۂ رمضان کی عدمِ فرضیت پر استدلال صحیح نہیں۔ھذا ما عندي واللّٰه تعالیٰ أعلم وعلمہ أتم۔ رویتِ ہلال: جواب:ہمارے یہاں قصبہ مبارکپور میں باہر سے کئی اشخاص ۲۹/ ذیقعدہ یومِ جمعہ کو چاند دیکھ کر آئے ہیں اور شہادت دی ہے کہ ہم لوگوں نے بچشمِ خود دیکھا ہے اور بہت سے لوگوں نے بھی چاند دیکھا ہے۔میں نے دو آدمی اپنے پاس بلا کر دریافت کیا تو ان دونوں نے بیان کیا کہ ہم دونوں نے الٰہ آباد کے بعض مواضع میں ۲۹/ ذی قعدہ یومِ جمعہ کو اپنی آنکھ سے چاند دیکھا اور بھی اس اطراف میں بہت سے لوگوں نے دیکھا۔آج میرا بھتیجا محمد امین سلمہ اﷲ دہلی سے آیا ہے،اس نے شہادت دی کہ میں نے بچشمِ خود ۲۹/ ذیقعدہ یومِ جمعہ کو چاند دیکھا ہے اور بہت سے لوگوں نے بھی دیکھا۔ مولوی عبیداﷲ مدرس مدرسہ رحمانیہ دہلی آج ہی آئے ہیں۔انھوں نے بھی بیان کیا کہ میں نے خود تو نہیں دیکھا،لیکن دہلی میں ایک جمِ غفیر نے ۲۹/ ذیقعدہ یومِ جمعہ کو چاند دیکھا،نیز ہمارے یہاں کے مولوی محمد بشیر اور مولوی نذیر احمد دہلی میں رہتے ہیں،ان دونوں صاحبوں کا خط پہلے آچکا ہے کہ دہلی میں ۲۹/ ذی قعدہ یوم جمعہ کو چاند دیکھا گیا ہے اور ایک شخص محلہ حسین آباد کے مالی گاؤں سے آج ہی آئے ہیں،انھوں نے بھی بیان کیا کہ ۲۹/ ذی قعدہ یومِ جمعہ کو بچشمِ خود چاند دیکھا ہے اور آج ہی اخبار اہلحدیث امرتسر سے آیا ہے،جس میں مولانا ثناء اﷲ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’یکم ذی الحجہ بلا اختلاف ہفتہ کو ہوئی۔عید الاضحی پیر کے روز ہوگی‘‘ پس ان تمام شہادتوں اور خبروں کی بنا پر ہم لوگ دو شنبہ کے روز عید الاضحی کی نماز پڑھیں گے اور قربانی کریں گے اور ان شہادتوں اور خبروں کی بنا پر دو شنبہ کے روز عید الاضحی کی نماز پڑھنا اور قربانی کرنا میرے نزدیک بلاشبہہ درست ہے۔ أملاہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔ حالتِ جنابت میں سحری کھا کر روزہ رکھنے کا حکم: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ رمضان شریف میں سحری کے وقت اپنی بی بی سے ہم بستری کی،یعنی سحری کے قبل یہ شخص بغیر غسل سحری کھایا تو اس کا روزہ ہوا یا نہیں ؟ اگر تن درستی کی حالت میں ایسا کیا تو اس کا روزہ ہوگا یا نہیں ؟ قصداً ایسا کیا گیا تو یہ روزہ درست ہے؟ اگر غسل کے عوض میں وضو کرے تو وضو ہو گا یا نہیں ؟