کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 30
3۔کتاب الطہارۃ:5 فتاویٰ۔ 4۔کتاب الصلاۃ: 48 فتاویٰ۔ 5۔کتاب الجنائز: 13 فتاویٰ۔ 6۔کتاب الزکاۃ والصدقات: 11 فتاویٰ۔ 7۔کتاب الصوم: 4 فتاویٰ۔ 8۔کتاب الحج: 1 فتاویٰ۔ 9۔کتاب النکاح:50 فتاویٰ۔ 9۔کتاب الطلاق والخلع: 22 فتاویٰ۔ 11۔کتاب الوقف:5 فتاویٰ۔ 12 کتاب البیوع: 18 فتاویٰ۔ 13۔کتاب الصید والذبائح:10 فتاویٰ۔ 14 کتاب الأطعمۃ: 2 فتاویٰ۔ 15۔کتاب الأضحیۃ والعقیقۃ:13 فتاویٰ۔ 16۔کتاب الحظر والإباحۃ: 37 فتاویٰ۔ 17۔کتاب الأذکار والدعوات:4 فتاویٰ۔ 18۔کتاب الأمارۃ: 9 فتاویٰ۔ 19۔کتاب الفرائض:8 فتاویٰ۔ اگرچہ دیکھنے میں ان فتاویٰ کی تعداد تین صد کے قریب نظر آتی ہے،لیکن متعدد مقامات پر ایک فتوے کے ضمن میں کئی استفسارات شامل ہوتے ہیں،جن کو اگر الگ الگ فتویٰ شمار کیا جائے تو یہ تعداد کئی گناہ بڑھ جاتی ہے،لیکن موضوع کی رعایت سے عموماً انھیں یوں ہی درج کر دیا گیا ہے۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ استفسارات کے جواب میں پہلے تو قرآنِ مجید اور حدیثِ نبوی کی نصوص رقم کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی توضیح و تشریح میں شروحِ حدیث اور کتبِ فقہ کی عبارات بھی ذکر کرتے ہیں،لیکن ہر جگہ نصوصِ شرعیہ اور کتاب و سنت کے دلائل ہی کی بنیاد پر کسی موقف کو ترجیح دیتے ہیں۔چنانچہ وہ کسی فقہی مسلک و مذہب پر انحصار نہیں کرتے اور یہی فقہ الحدیث کا تقاضا اور ائمہ سلف کا منہج تھا کہ ائمہ دین کی تعبیرات اور اُن کے استنباطات و اجتہادات سے استفادہ کرنا تو درست ہے،لیکن ان کے اقوال و آرا کو حرفِ آخر سمجھ کر انھیں کے افکار پر فتوے کی بنیاد رکھنا اور حرف بہ حرف ان کے مجتہدات کو لکھ دینا چنداں قابلِ تحسین نہیں ہے۔بحمد اﷲ یہی علمائے حدیث کا منہجِ افتا ہے جو قدیم سے لے کر اب تک چلا آرہا ہے۔کثر اللّٰه أمثالھم وحشرنا في زمرتھم۔ اسلوبِ تحقیق: 1۔ زیرِ نظر مجموعہ میں آیات کے ساتھ سورتوں کے نام اور ان کی ترقیم کا اہتمام کیا گیا ہے،کیوں کہ مولف رحمہ اللہ نے عموماً آیات کو سورت کے نام اور آیت نمبر کے بغیر ہی ذکر کیا تھا۔ 2۔ تمام احادیث و آثار کی مقدور بھر تحقیق و تخریج کی گئی ہے۔جس حدیث کے ضعف کی علت و سبب پر اطلاع ہوئی،اسے اختصار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے،کیوں کہ عصرِ حاضر میں قلتِ علم اور انتشارِ جہل کے سبب اگر کسی ضعیف یا موضوع روایت کا ذکر سببِ وضع یا علتِ ضعف کو بیان کیے بغیر کیا جائے تو اس کے نتیجے میں کئی طرح کے مفاسد