کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 298
’’صدقۃ الفطر واجبۃ علیٰ الحر المسلم إذا کان مالکا لمقدار النصاب فاضلا عن مسکنہ وثیابہ وأثاثہ وفرسہ وسلاحہ وعبیدہ،یخرج ذلک عن نفسہ،ویخرج عن أولادہ الصغار وممالیکہ‘‘[1] انتھیٰ ملخصاً۔ [صدقہ فطر آزاد مسلمان پر واجب ہے،جب کہ وہ مکان،کپڑے،سامان خانہ،گھوڑے،اسلحہ اور غلام کے علاوہ زائد اور مقدار نصاب کا مالک ہو،وہ اپنا صدقہ بھی دے اور اپنی چھوٹی اولاد اور غلاموں کا صدقہ بھی ادا کرے] ادائے صدقہ کا وقت قبل نمازِ عید الفطر کے ہے اور اگر کوئی دو یا تین روز یا زیادہ عید سے پہلے ادا کر دے تو جائز ہے،لیکن بعد نماز عید کے اگر دے گا تو ادا نہ ہو گا،کیونکہ آیت مذکورہ { قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی} کے بعد { وَذَکَرَ اسْمَ رَبِہٖ فَصَلّٰی} فرمایا،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ فطر نماز پر مقدم ہے،کیونکہ {فَصَلّٰی} کو فائے تعقیب کے ساتھ ذکر کیا ہے،جس سے صلاۃ کی صدقہ سے تعقیب مستفاد ہوتی ہے،جیسا کہ معمولی غور و فکر کرنے والے پر بھی عیاں ہے۔حدیث میں آیا ہے: ’’وعن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال:فرض رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم زکاۃ الفطر طھرۃ للصائم من اللغو والرفث وطعمۃ للمساکین،فمن أداھا قبل الصلاۃ وھي زکاۃ مقبولۃ،ومن أداھا بعد الصلاۃ فھي صدقۃ من الصدقات۔رواہ أبو داود وابن ماجہ والدارقطني والحاکم وصححہ،کذا في منتقیٰ الأخبار والنیل[2] وللبخاري:وکانوا یعطون قبل الفطر بیوم أو یومین۔[3] انتھیٰ،وفي موضع آخر:والظاھر أن من أخرج الفطر بعد صلاۃ العید کان کمن لم یخرجھا باعتبار اشتراکھما في ترک ھذہ الصدقۃ الواجبۃ‘‘[4] انتھیٰ ما في نیل الأوطار۔ [رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزے دار کے روزے کو لغو اور رفث سے پاک کرنے اور مساکین کے کھانے کے لیے فرض قرار دیا ہے،جو نمازِ عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کرے،اس کی زکات مقبول ہے اور جو نماز کے بعد ادا کرے،وہ دوسرے صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔بخاری میں ہے کہ صحابہ ایک دو دن پہلے ہی صدقہ فطر ادا کیا کرتے تھے اور جو بعد نماز ادا کرے،گویا اس نے صدقہ فطر ادا ہی نہیں کیا] جوچیز طعام یعنی قابلِ قوت ہے،مثلاً:گیہوں،جَو،پنیر،خرما،ستو وغیرہ،اس میں صدقہ فطر ادا کرنا صحیح ہے۔ عن عیاض بن عبد اللّٰه بن أبي سرح العامري أنہ سمع أبا سعید الخدري یقول:کنا
[1] الھدایۃ (ص:۱۱۳) [2] نیل الأوطار (۴/ ۵۶۵) [3] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۴۴) [4] نیل الأوطار (۴/ ۲۵۵)