کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 293
الدارقطني:ھو کذاب،و صح ھذا الکلام عن الشعبي وعن عکرمۃ أخرجہ ابن أبي شیبۃ،وصح عن عمر بن عبد العزیز أنہ قال:لمن قال:إنما عليّ الخراج:الخراج علیٰ الأرض،والعشر علیٰ الحب۔أخرجہ البیھقي من طریق یحییٰ بن آدم في الخراج لہ،وفیھا عن الزھري:لم یزل المسلمون علیٰ عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وبعدہ یعاملون علیٰ الأرض،ویستکرونھا،ویؤدون الزکاۃ عما یخرج منھا،وفي الباب حدیث ابن عمر:فیما سقت السماء عشر۔متفق علیہ،ویستدل بعمومہ‘‘[1] انتھیٰ [یہ حدیث کہ ’’عشر اور خراج مسلمانوں کی زمین میں جمع نہیں ہوتے‘‘ اس کی سند میں یحییٰ بن عنبسہ بہت ضعیف ہے۔دارقطنی نے اس کو کذاب کہا ہے،ہاں شعبی اور عکرمہ کا قول ضرور ہے۔عمر بن عبد العزیز سے ایک آدمی نے کہا تھا کہ میں خراج ادا کرتا ہوں،عشر نہیں دوں گا تو آپ نے فرمایا:خراج زمین پر ہے اور عشر غلے کی پیداوار پر۔زہری نے کہا:رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک لوگ بٹائی اور ٹھیکے پر زمین کی کاشت کرتے رہے اور پیداوار کی زکات بھی دیتے رہے۔عبداﷲ بن عمر کی حدیث کہ ’’بارانی زمین میں عشر ہے اور چاہی وغیرہ میں نصف عشر‘‘ عام ہے۔اس میں کسی زمین کی تخصیص نہیں ہے] نیز علامہ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی تفسیر مظہری میں لکھتے ہیں: ’’ولم یثبت منع الجمع بین العشر والخراج بدلیل شرعي،وما رواہ ابن الجوزي وذکرہ ابن عدي في الکامل عن یحییٰ بن عنبسۃ:حدثنا أبو حنیفۃ عن حماد عن إبراھیم عن علقمۃ عن ابن مسعود قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:لا یجتمع علیٰ مسلم عشر وخراج۔باطل‘‘ انتھیٰ [کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ عشر اور خراج جمع نہیں ہوسکتے اور ابن جوزی اور ابن عدی نے جو یحییٰ بن عنبسہ سے حدیث روایت کی ہے کہ مسلمان پر عشر اور خراج جمع نہیں ہوسکتے،وہ بالکل باطل ہے] پھر ایک یہ دلیل ہے کہ کسی امام نے،عادل ہو خواہ جائر،عشر اور خراج کو جمع نہیں کیا،یعنی ایسا نہیں کیا کہ عشر بھی لیا ہو اور خراج بھی،پس تمام ائمہ (جائر ہوں خواہ عادل) کا اتفاق و اجماع اس امر کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ زمین خراجی میں عشر نہیں۔یہ دلیل بھی ناقابلِ استدلال ہے،جیسا کہ مجیب نے علامہ ابن الہمام سے نقل کیا اور حافظ ابن حجر درایہ میں لکھتے ہیں:
[1] الدرایۃ في تخریج أحادیث الھدایۃ (۲/ ۱۳۲)