کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 287
أعلم وعلمہ أتم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] کیا دینی مدرسے میں زکات دے سکتے ہیں یا نہیں ؟ سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین مصارفِ زکات کے بارے میں:آیا اس میں ایسا مدرسہ جس میں تعلیمِ قرآن و حدیث ہوتی ہے اور اکثر اطفال مساکین تحصیلِ علم میں مشغول ہیں اور ان کے اکل و شرب اور کتب و لباس کی خبر بذریعہ مہتمم لی جاتی ہے،داخل ہے یا نہیں اور مالک زکات اس مدرسے میں زکات خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ جواب:غریب اور مسکین طلبہ بلاشبہہ مصرفِ زکات ہیں۔ایسے مدرسے میں مالک زکات،زکات خرچ کر سکتے ہیں،چاہیں خود آپ بلاواسطہ مہتمم کے ان کے طلبہ کو دیں یا بواسطہ مہتمم کے ان کو دیں اور مہتمم کو اس امر کی ہدایت کر دیں کہ یہ زکات کا روپیہ ہے،اس کو صرف غریب و مسکین طلبہ پر خرچ کریں۔واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] سید محمد نذیر حسین سوال:جس ملک کے مسلمانوں میں بسبب عدمِ تلقین و تعلیمِ احکام ارکانِ اسلام مروج نہ ہوئے ہوں،پس ایسے ملک میں مدرسہ اسلامیہ جاری ہونا ضروری ہے یا نہیں اور وہاں کے مسلمان صرف زکات سے مدرسے کی مدد کر سکتے ہوں تو ایسی معذوری کی حالت میں مالِ زکات میں سے مدرسین کی تنخواہ دینا یا سامانِ مدرسہ خریدنا یا تجارت میں لگا کر اس کے نفع سے مدرسے کو قائم رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب:مالِ زکات سے مدرسین کی تنخواہ دینا یا سامانِ مدرسہ فراہم کرنا جائز نہیں ہے،ہاں مالِ زکات سے غریب طلبہ کو دینا جائز ہے،اس واسطے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مالِ زکات کے آٹھ مصرف بیان فرمائے ہیں،ان آٹھ مصارف میں غریب طلبہ داخل ہیں اور مدرسے کی تنخواہ اور سامان مدرسہ ان آٹھ مصارف سے خارج ہیں اور جس ملک میں بوجہ عدمِ تعلیم و تلقین کے احکام و ارکان اسلام جاری نہ ہوں،وہاں مدرسہ اسلامیہ ہونا بہت ضروری ہے۔وہا ں کے مسلمانوں کو چاہیے کہ علاوہ مالِ زکات کے تھوڑی تھوڑی اعانت کر کے حسبِ حیثیت ایک مدرسہ قائم کریں۔بڑا نہیں تو چھوٹا ہی سہی اور یہ عذر کہ ’’وہاں کے مسلمان صرف زکات سے مدرسہ کی مدد کر سکتے ہیں ‘‘ ٹھیک نہیں ہے،کیونکہ وہاں کے مسلمان جیسے اپنی دنیاوی ضرورتوں میں خواہ مخواہ علاوہ زکات کے اپنے مال کو خرچ کرتے ہیں اور ان کو کچھ معذوری نہیں ہے،اسی طرح وہاں ایک مدرسہ اسلامیہ کا قائم ہونا ایک
[1] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۷۵) [2] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۸۹)