کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 286
[رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:صدقہ آلِ محمد کے لائق نہیں ہے۔یہ لوگوں کی میل کچیل ہے،فرمایا:اے اہلِ بیت! تمھارے لیے صدقات حلال نہیں ہیں،یہ ہاتھوں کی میل ہے اور تمھارے لیے خمس میں سے خمس ہے،جو تمھیں کفایت کرے گا] یہ علت مصرحہ و منصوصہ زکات کی لازم الماہیۃ ہے،جب اور جس وقت زکات پائی جائے گی،اس کا اوساخ الناس اور غسالۃ الایدی ہونا ضروری و لازم ہوگا،بنا بریں ساداتِ بنی ہاشم پر ہمیشہ اور ہر زمانے میں زکات کی حرمت ثابت ہو گی۔اگر سادات پر زکات کی حرمت کی علت تقرر خمس الخمس ہونا تسلیم کر لیا جائے،جیسا کہ بعض لوگوں نے خیال کیا ہے تو اس تقدیر پر حرمت کی دو مستقل علت ہوں گی۔ایک زکات کا اوساخ الناس اور غسالۃ الایدی ہونا اور دوسری تقرر خمس الخمس۔صرف ایک علت کے ارتفاع سے معلول کا ارتفاع نہیں ہوگا،بلکہ جب تک ایک (اوساخ الناس وغسالۃ الایدی ہونا) پائی جائے گی،تب تک معلول (ساداتِ بنی ہاشم پر زکات کا حرام ہونا) ضرور پایا جائے گا اور یہ ایک علت ہر زمانے میں پائی جائے گی،پس بنی ہاشم پر زکات کی حرمت بھی ہمیشہ اور ہر زمانے میں پائی جائے گی۔علامہ محمد بن اسماعیل الامیر ’’سبل السلام‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’إنہ صلی اللّٰه علیہ وسلم کرم آلہ عن أن یکونوا محلا للغسالۃ،وشرفھم عنھا،وھذہ ھي العلۃ المنصوصۃ،وقد ورد التعلیل عند أبي نعیم مرفوعاً بأن لھم في خمس الخمس ما یکفیھم ویغنیھم،فھما علتان منصوصتان،ولا یلزم من منعھم عن الخمس أن تحل لھم،فإن من منع الإنسان عن مالہ وحقہ لا یکون منعہ لہ محللا ما حرم علیہ،وقد بسطنا القول في رسالۃ مستقلۃ‘‘[1] انتھیٰ [رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آل کو عزت عطا فرمائی کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل نہ کھائیں۔صدقات کے اہلِ بیت پر حرام ہونے کی اصل علت بھی یہی ہے۔ابو نعیم نے مرفوعاً اس علت کو بیان کیا ہے کہ ان کے لیے خمس میں سے خمس ہے،جو ان کے لیے کافی ہے۔اگر ان کو خمس نہ ملے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے لیے زکات حلال ہو جائے گی کہ ایک آدمی اگر اپنے مال میں یا حق سے محروم ہوجائے تو اس کے لیے کوئی حرام مال مال حلال نہیں ہوجائے گا،وہ اس پر حرام ہی رہے گا] پس جب معلوم ہوا کہ ساداتِ بنی ہاشم پر زکات حرام ہے اور وہ زکات کے مصرف نہیں ہیں تو زکات انھیں دینا جائز نہیں۔اگر کوئی انھیں دانستہ دے گا تو زکات ادا نہیں ہوگی اور واپس لے لینا ضروری ہوگا اور اگر واپسی ناممکن ہو تو پھر سے زکات دینا ضروری ہے اور لا علمی کی وجہ سے دیا ہے تو زکات ادا ہوجائے گی۔واللّٰه تعالیٰ
[1] سبل السلام (۲/ ۱۴۸)