کتاب: سلسلہ فتاوی علمائے اہل حدیث 3 مجموعہ فتاویٰ محدث العصر علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری - صفحہ 285
’’وثبت عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم:الصدقۃ أوساخ الناس۔کما رواہ مسلم،ویؤخذ من ھذا جواز التطوع دون الفرض‘‘[1] انتھیٰ،واللّٰه تعالیٰ أعلم و علمہ أتم۔ [نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ صدقہ لوگوں کی میل کچیل ہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفلی صدقہ لینا ان کے لیے جائز ہے،فرضی نہیں ] کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] سوال:سادات مساکین کی خدمت گزاری کی مسلمانوں کو توفیق نہ ہو بجز زکات سے امداد کرنے کے اور سادات کے لیے وسیلہ معاش موجود نہ ہو،وہ اس بنا پر کہ خمس غنیمت ہمیں نہیں ملتا،زکات لینے کی ممانعت بنا مذکورہ سے تھی،ہمیں زکات لینی جائز ہے اور انھیں احق خیال کر کے زکات دی جائے تو جائز ہے یا نہیں اور زکات ادا ہو گی یا نہیں ؟ اگر ادا نہ ہوئی تو واپسی لازم ہے یا نہیں ؟ اگر واپسی کا مقدور نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ جواب:واضح ہو کہ سادات بنی ہاشم کو زکات لینا ہمیشہ اور ہر زمانے میں حرام ہے۔احادیثِ صحیحہ صریحہ سے یہی ثابت ہے اور اکثر ائمہ دین کا یہی مذہب ہے۔عند الحنفیہ بھی یہی مفتی بہ ہے۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت آئی ہے کہ اس زمانے میں سادات بنی ہاشم کو بنی ہاشم سے زکات لینا جائز ہے اور غیر بنی ہاشم سے جائز نہیں،مگر یہ دونوں روایتیں عند الحنفیہ نامعتبر و غیر مفتیٰ بہ ہیں،کیونکہ احادیثِ صحیحہ نیز ظاہر المذہب اور ظاہر الروایہ کے خلاف ہیں۔دیکھو:بحر الرائق و نہر الفائق و رسائل الارکان وغیرہ کتبِ معتبرہ حنفیہ۔[3] رہا سادات کا یہ خیال کہ ’’ہمیں زکات لینے کی ممانعت اس بات پر تھی کہ ہمیں غنیمت سے خمس ملتا تھا اور اب خمس نہیں ملتا ہے تو اب ہمیں زکات لینی جائز ہے۔‘‘ سو یہ صحیح نہیں ہے،کیونکہ ساداتِ بنی ہاشم پر زکات حرام ہونے کی علت یہ نہیں ہے کہ انھیں غنیمت سے خمس الخمس ملتا تھا،بلکہ اس کی علت جو احادیث سے بصراحت ثابت ہے وہ یہ ہے کہ مالِ زکات اوساخ الناس وغسالۃ الایدی ہے: ’’قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( إن الصدقۃ لا ینبغي لآل محمد،إنما ھي أوساخ الناس )) [4] (رواہ مسلم) وقال:لا یحل لکم أھل البیت من الصدقات شییٔ إنما ھي غسالۃ الأیدي،وإن لکم في خمس الخمس ما یغنیکم‘‘[5] (رواہ الطبراني)
[1] فتح الباري (۳/ ۳۵۴) [2] فتاویٰ نذیریہ (۲/ ۷۲) [3] البحر الرائق ۲۰/ ۲۶۶) رسائل الأرکان (ص:۱۸۸) [4] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۰۷۲) [5] المعجم الکبیر (۱۱/ ۲۱۷) اس کی سند میں ’’حسین بن قیس حنش‘‘ راوی سخت ضعیف ہے۔